جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

حرام تعلقات كے بعد توبہ كى اور ولى كى غير موجودگى ميں شادى كر لى اب كيا كريں

104852

تاریخ اشاعت : 05-09-2010

مشاہدات : 6649

سوال

ميں فرانس ميں رہتا ہوں اور ايك بيوہ سے شادى كى ہے جس كى اولاد بھى ہے اس سے ميرے غير شرعى تعلقات ـ زنا ـ بھى رہے ہيں اور بعد ميں اللہ سے سچى توبہ كر كے شادى كر لى، ہمارى شادى ميں اس علاقے كا امام اور گواہ پانچ اشخاص تھے اس وقت تو مجھے شادى ميں ولى كى شرط كا علم نہيں تھا.
شادى كے بعد ميں نے اس سے اس كے والدين كى رائے كے بارہ ميں دريافت كيا تو وہ كہنے لگى: وہ اس شادى پر راضى نہ تھے، يہ علم ميں رہے كہ اس كے والدين مغرب ميں رہتے ہيں اور يہ عورت فرانس ميں، ليكن شادى كے بعد انہوں نے اسے معاف كر ديا، اور اب ان كے آپس ميں بہت اچھے تعلقات ہيں، وہ ہمارے پاس بھى آئے اور اب اس سے ميرى دو بيٹياں ہيں برائے مہربانى ميرى راہنمائى فرمائيں، آيا يہ عقد نكاح صحيح تھا يا نہيں اور اب مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى توبہ قبول فرمائے اور آپ كے گناہ معاف كردے، اور اطاعت و فرمانبردارى ميں آپ كى معاونت فرمائے.

دوم:

ولى كے راضى نہ ہونے كى بنا پر آپ كا عقد نكاح باطل تھا اس ليے آپ كو ولى كى موجودگى ميں نكاح دوبارہ كرنا چاہيے اور اگر وہ خود حاضر نہ ہو سكے تو كسى اور كو وكيل بنا دے جو عقد نكاح ميں اس كى نيابت كرے.

ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جمہور علماء كا كہنا ہے كہ:

ولى كے بغير نكاح باطل ہے، جو كوئى بھى ولى كے بغير نكاح كرے وہ اسے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى اتباع كرتے ہوئے تعزير لگاتے اور سزا ديتے ہيں، امام شافعى كا مسلك بھى يہى ہے، بلكہ ان ميں سے تو ايك گروہ اسے رجم كى حد لگاتا ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 21 ).

اور شيخ الاسلام كا يہ بھى كہنا ہے:

" قرآن مجيد اور سنت نبويہ كے كئى ايك مقامات اس پر دلالت كرتے ہيں، اور صحابہ كرام كى يہ عادت ہے كہ عورتوں كى شادى مرد كرتے تھے، يہ معروف نہيں كہ كسى بھى عورت نے اپنا نكاح خود كيا ہو، يہى ہے وہ جس سے نكاح اور خفيہ دوستياں لگانے ميں فرق ہوتا ہے، اسى ليے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہا كرتى تھيں:

" عورت اپنا نكاح خود مت كرے، كيونكہ جو عورت اپنا نكاح خود كرتى ہے وہ باغيہ اور زانى ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 131 ).

اور عون المعبود كے مؤلف لكھتے ہيں:

" حق يہى ہے كہ ولى كے بغير نكاح باطل ہے، جيسا كہ اس پر حديث دلالت كرتى ہے " انتہى

ديكھيں: عون المعبود ( 6 / 101 ).

اب آپ دونوں پر واجب ہے كہ اگر عقد نكاح صحيح كرنا چاہتے اور اسے شريعت كے مطابق بنانا چاہتے ہيں تو ولى كى موجودگى اور اس كى موافقت كے ساتھ نكاح دوبارہ كريں.

اور آپ كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اس عقد نكاح كو جتنا جلدى ہو سكے صحيح كر ليں، كيونكہ اب آپ كا اكٹھے رہنا حرام ہے، اس ليے كہ تمہارے درميان جو عقد نكاح ہوا تھا وہ صحيح نہيں تھا.

اس ميں جلدى كرنے كے ليے آپ بيوى كے باپ كو ٹيلى فون كر سكتے ہيں اور وہ آپ كو كہے كہ ميں نے اپنى فلاں بيٹى كا تمہارے ساتھ نكاح كيا، اور آپ اسے قبول كريں، ليكن يہ دو گواہوں كى موجودگى ميں ہونا چاہيے جو باپ كى آواز پہچانتے اور سنتے ہوں.

سوم:

رہا مسئلہ بيٹوں كا تو وہ اپنے باپ كى طرف منسوب ہونگے كيونكہ آپ نے بغير ولى كے عقد نكاح كيا اور آپ كا خيال تھا كہ ايسا نكاح صحيح ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب