جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

اگر زمین کی قیمت گِر جائے تو کیا پھر بھی اس میں زکاۃ ہے؟

105334

تاریخ اشاعت : 02-02-2015

مشاہدات : 3279

سوال

میں نے زمین خریدی ہے، اور میری نیت یہ ہے کہ جب قیمت بڑھ جائے گی تو زمین کو فروخت کردونگا، لیکن زمین کی قیمت دس سال میرے پاس رہنے کے بعد بڑھنے کی بجائے گر گئی، تو کیا اس زمین میں پھر بھی زکاۃ ہوگی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس زمین کو اس نیت سے خریدا گیا کہ قیمت بڑھنے پر اسکو فروخت کردیا جائے گا، ایسی زمین پر زکاۃ لاگو ہوگی؛ کیونکہ یہ اس وقت تجارتی سامان میں شامل ہوچکی ہے، اور تجارتی سامان  کی ایک سال گزرنے کے بعد موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت لگائی جاتی ہے، چنانچہ قیمتِ خرید کو مد نظر نہیں رکھا جاتا،  اسکے بعد اسکی زکاۃ ادا کی جاتی ہے، جو کہ چالیسواں حصہ یعنی: 2.5٪ ہے۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (38886) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  سے پوچھا گیا:
"میرے پاس زمین ہے، اور میں اسے فروخت کرنے کیلئے اسکی قیمت بڑھنے کا  انتظار کر رہا ہوں، یہ زمین کئی سالوں سے میرے پاس ہے، تو کیا میں اسکی زکاۃ ادا کروں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
" جس شخص نے نفع کمانے کی غرض سے زمین خریدی، اور پھر زمین کی قیمت گر گئی ، اور اس شخص نے قیمت زیادہ ہونے تک اس زمین کو اپنی پاس رکھا تو وہ اس زمین کی ہر سال زکاۃ ادا کریگا؛ کیونکہ یہ سامانِ تجارت ہے، اور اگر زکاۃ کی ادائیگی کیلئے اس کے پاس رقم نہیں ہے، اور نہ ہی زمین کی خریداری کا کوئی امید وار ہے، تو ہر سال اسکی قیمت لگائے ، اور اس پر آنے والی زکاۃ لکھ لے، اور جب کبھی زمین فروخت ہو تو  گزشتہ ساری زکاۃ یکبار ادا کردے"انتہی
"مجموع الفتاوى" (18/225)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  سے یہ بھی پوچھا گیا:
"ایک شخص نے تجارت کی غرض سے زمین خریدی، اور کافی عرصہ اسکی ملکیت میں رہی تو کیا اس پر زکاۃ ہوگی؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جب کوئی انسان زمین تجارت کی غرض سے خریدتا ہے تو اس پر ہر سال زکاۃ لاگو ہوگی، چاہے زمین کی قیمت بڑھے یا کم ہو، وہ ہر سال زمین کی قیمت لگا کر اسکی زکاۃ کا حساب لگائے گا، چنانچہ اگر اسکے پاس پیسے ہیں تو ان میں سے زکاۃ ادا کردے، اور اگر اسکے پاس پیسے نہیں ہیں تو ہر سال کی زکاۃ کی رقم لکھ لے، اور جب زمین فروخت ہو تو گزشتہ سالوں کی یکبار زکاۃ ادا کردے"انتہی
"لقاء الباب المفتوح" (15/12)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب