جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

اپنی اصل یا فرع یعنی آباؤ اجداد یا اپنی اولاد کو زکاۃ نہ دینے کی دلیل

105789

تاریخ اشاعت : 28-10-2015

مشاہدات : 4556

سوال

سوال: کیا میں اپنے والدین کو زکاۃ دے سکتی ہوں؟ واضح رہے کہ میں ایک عورت ہوں اور کیا مجھ پر ان کا خرچہ لازمی ہے؟ اور علمائے کرام کے پاس اپنی اصل یا فرع یعنی آباؤ اجداد اور اولاد کو زکاۃ نہ دینے کی کیا دلیل ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پہلے سوال نمبر : (111811) اور (111892) کے جواب میں یہ گزر چکا ہے کہ: انسان کو اپنی اصل اور فرع دونوں پر خرچ کرنا چاہیے، اصل سے مراد باپ، ماں، دادا، دادی، نانا ، نانی مراد ہیں، جبکہ فرع سے مراد: بیٹے، پوتے، نواسے،بیٹیاں ، پوتیاں اور نواسیاں مراد ہیں۔

چنانچہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ ان کا خرچہ واجب ہے، تو انہیں زکاۃ دینا جائز نہ ہوگا؛ کیونکہ  اگر انسان کی اصل اور فرع کے افراد غریب ہوں اور انسان خود مالدار ہو تو اس پر نفقہ لازم ہو گا، چاہے انسان مرد ہو یا عورت، اور اگر ایسی صورت میں کوئی اپنی زکاۃ انہیں دے گا تو ایسے ہی ہے کہ اس نے اپنا مال بچا کر زکاۃ اپنے پاس ہی رکھ لی ہے۔

اس بارے میں علمائے کرام کا اصول یہ ہے کہ:
"ہر وہ انسان جس کا خرچہ آپ کے ذمہ ہے آپ اسے اپنے مال کی زکاۃ نہیں دے سکتے"
چنانچہ اس بارے میں ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/269) میں کہتے ہیں:
"فرض زکاۃ میں سے والدین، اور اولاد کو نہیں دیا جا سکتا، ابن منذر  کہتے ہیں کہ: اہل علم کا اس بارے میں اجماع ہے کہ اولاد والدین کو ایسی صورت میں زکاۃ نہیں دے سکتی جب اولاد پر والدین کا خرچہ واجب ہوتا ہو، کیونکہ اگر اولاد والدین کو زکاۃ دے گی تو اس طرح اولاد کو والدین پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، گویا کہ انہوں نے زکاۃ دے کر اپنے ذمہ واجب خرچہ کو بچا لیا ہے، یا دوسرے لفظوں میں زکاۃ خود ہی رکھ لی ہے۔

اسی طرح اپنی اولاد کو بھی زکاۃ نہیں دے سکتے، امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "کوئی بھی شخص اپنے والدین ، اولاد، پوتے ، دادا، دادی، اور نواسے کو اپنی زکاۃ نہ دے" کچھ اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا

یہاں سے کچھ اہل علم کے ہاں دو صورتوں کو مستثنی کیا جائے گا:

1- اصل یا فرع پر قرض ہو، تو ایسی صورت میں ان کے قرض کی ادائیگی کیلئے زکاۃ دی جا سکتی ہے؛ کیونکہ اولاد کا قرضہ والد کے یا والد کا قرضہ اولاد کے ذمہ واجب الادا نہیں ہے۔

2- زکاۃ دینے والے کے پاس اتنا  مال نہیں ہے کہ اصل یا فرع کا خرچہ برداشت کر سکے، ایسی صورت میں زکاۃ دینے والے پر اصل یا فرع کا خرچہ واجب نہیں ہوگا، تو اس صورت میں وہ زکاۃ دے سکتا ہے۔

چنانچہ اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف "الاختيارات" (ص 104)میں ہے کہ:
"والدین اور آباؤ اجداد  کو اسی طرح اپنی نسل یعنی پوتے پوتیوں کو زکاۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ یہ لوگ زکاۃ کے مستحق ہوں اور زکاۃ دینے والے کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے ان کا خرچہ برداشت کر سکے، یا ان میں سے کوئی مقروض ہو یا ،مکاتب ہو یا مسافر ہو تب بھی ان پر خرچ کر سکتا ہے، اسی طرح اگر ماں غریب ہو، اور اس کے بچوں کے پاس مال ہو، تو ماں کو بچوں کے مال کی زکاۃ دی جا سکتی ہے" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب