الحمد للہ.
اول:
طلاق كى قسم اٹھانے كى عادت اچھى نہيں يہ بہت برى خصلت ہے اس سے اجتناب كرنا چاہيے؛ كيونكہ قسم تو صرف اللہ عزوجل كى اٹھانى چاہيے، اور اس ليے بھى كہ طلاق تفريح كے ليے اور مزاق كرنے اور كھيلنے كے ليے مشروع نہيں كى گئى.
بلكہ شريعت اسلاميہ نے تو ضرورت كے وقت اس پختہ عقد اور معاہدے كو توڑنے كے ليے مشروع كى ہے جسے شادى كہا جاتا ہے، اور جو كثرت سے اس كى قسم كھاتا ہے، ہو سكتا ہے وہ طلاق واقع كر بيٹھے اور اس طرح اس كى بيوى اس سے بائن ہو كر اس پر حرام ہو جائے، اور يہ چيز اس كے نہ چاہتے ہوئے بھى خاندان كو تباہ كرنے اور خاندان كا شيرازہ بكھرنے كا سبب بن جائے.
دوم:
طلاق كى قسم اٹھانا: مثلا كوئى شخص كہے: اگر ميں نے يہ كيا تو مجھ پر طلاق، يا كہے: ميں ايسا نہيں كرونگا مجھ پر طلاق، يا پھر اگر ايسا ہوا تو ، يا اگر ايسا نہ ہوا تو مجھ پر طلاق, اس كے متعلق اہل علم كا اختلاف ہے.
جمہور اہل علم كے ہاں اگر اس كى قسم ٹوٹ گئى تو طلاق واقع ہو جائيگى.
ليكن بعض اہل علم جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں كہتے ہيں
اگر طلاق قسم كى جگہ ہو اور قسم اٹھانے والے نے اس سے كسى چيز پر ابھارنا يا كسى چيز سے منع كرنا، يا پھر كسى چيز كى تصديق يا تكذيب مراد لى ہو تو قسم توڑنے كى صورت ميں صرف اسے قسم كا كفارہ لازم آئيگا، اور طلاق واقع نہيں ہوگى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ اور شيخ ابن عثيمين رحمہم اللہ كا فتوى بھى يہى ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" راجح يہ ہے كہ جب طلاق كو قسم كى جگہ استعمال كيا جائے، وہ اس طرح كہ اس سے كسى چيز پر ابھارنا يا منع كرنا يا تصديق يا تكذيب كرنا يا تاكيد كرنا مقصد ہو تو يہ قسم كے حكم ميں ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جس چيز كو اللہ نے آپ كے ليے حلال كر ديا ہے اسے آپ كيوں حرام كرتے ہيں ؟ ( كيا ) آپ اپنى بيويوں كى رضامندى حاصل كرنا چاہتے ہيں، اور اللہ بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، تحيقيق اللہ تعالى نے تمہارے ليے قسموں كو كھول ڈالنامقرر كر ديا ہے، اور اللہ تمہارا كارساز ہے اور وہى پورے علم والا حكمت والا ہے التحريم ( 1 - 2 ).
تو اللہ سبحانہ و تعالى نے تحريم كو قسم بنايا ہے، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى "
اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
اور اس شخص نے طلاق كى نيت نہيں كى، بلكہ قسم كى نيت كى ہے، يا پھر قسم كے معنى كى نيت كى، چنانچہ جب وہ اس كو توڑےگا تو اس كے ليے قسم كا كفارہ كافى ہوگا، يہى قول راجح ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 754 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا: مجھ پر طلاق تم ميرے ساتھ اٹھو، ليكن وہ اس كے ساتھ نہ اٹھى تو كيا اس سے طلاق واقع ہو جائيگى ؟
كميٹى كے علما كا جواب تھا:
" اگر تو اس كا مقصد طلاق دينا نہ تھا، بلكہ صرف بيوى كو اپنے ساتھ جانے پر ابھارنا مقصود تھا تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى، صحيح قول كے مطابق خاوند پر كفارہ لازم آ ئيگا.
اور اگر خاوند كا مقصد طلاق دينا تھا اور بيوى نے اس كى بات نہ مانى تو اسے ايك طلاق ہو گئى ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 86 ).
اس بنا پر اگر آپ كا مقصد طلاق نہ تھا بلكہ صرف دھمكى تھى يا پھر كسى چيز پر ابھارنا يا كسى چيز سے روكنا يا تصديق يا تكذيب كرنا مقصود تھا، پھر آپ كى قسم ٹوٹ گئى تو آپ كو قسم كا كفارہ دينا لازم ہوگا.
قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: ايك غلام آزاد كيا جائے، يا پھر دس مسكينوں كو كھانا كھلايا جائے، يا انہيں لباس مہيا كيا جائے، اور اگر آپ اس كى استطاعت نہ ركھيں تو تين روزے ركھيں.
اور اگر آپ نے طلاق كى قسم كسى ايسے كام پر اٹھائى جو گزر چكا تھا اور آپ كو علم تھا كہ وہ جھوٹ ہے، تو پھر آپ كو جھوٹ سے توبہ كرنا لازم آئيگا، اور قسم كا كفارہ لازم نہيں ہوگا كيونكہ جمہور علماء كے ہاں جو شخص جھوٹى قسم اٹھاتا ہے اس پر كفارہ نہيں، اس ليے كہ يمين غموس يعنى جھوٹى قسم كفارہ دينے سے بڑى ہے، اور ايسا كرنے والے كو توبہ كرنى چاہيے اور آئندہ وہ ايسا مت كرے.
رہا مسئلہ دخول اور ر خصتى سے قبل قسم اٹھانے كا تو يہ حكم ميں اثرانداز نہيں ہوگا، چنانچہ جس نے اپنى بيوى كو دخول سے قبل طلاق دى تو اس كے ليے رجوع نہيں كيونكہ اس پرعدت ہى نہيں ہے.
اس ليے آپ اس سے اجتناب كريں، اور اپنى زبان پر كنٹرول كرتے ہوئے زبان كى حفاظت كريں، اور اپنے كلمات ميں اللہ كا خوف اور ڈر اختيار كيں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو ايسے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جن ميں اس كى رضامندى و خوشى ہے اور جنہيں وہ پسند كرتا ہے.
واللہ اعلم .