الحمد للہ.
پہلی بات:
ایک خاتون ڈاکٹر آف فارمیسی کے ساتھ آپ دواخانہ کھولنے کا معاہدہ کریں کہ رأس المال آپکی طرف سے ہو، اور خاتون کی جانب سے لائسنس نکلوانے کیلئے متعلقہ ڈگری ہو، اور اُسے ماہانہ مقرر کردہ تنخواہ دی جائے، ہمیں آپکے اِس معاہدے کے متعلق یہی لگتا ہے کہ یہ جائز ہے، بشرطیکہ دواخانے پر متخصص شخص ہی کام کرے، اور فارماسیسٹ کو دی جانے والی ماہانہ تنخواہ اُسکے نام سے جاری لائسنس کے عوض میں ہوگی، ہمارے مطابق یہ مادی حق ہے جسکا عوض بیع یا اجارہ کی شکل میں لینا جائز ہے۔
یہاں پر ممنوع بات یہ ہے کہ فارمیسی پر کسی غیر متخصص شخص کو کام سپرد کیا جائے، کیونکہ اِسکی وجہ سے ادویات کے متعلق لاعلمی کی بنا پر ادویات خلط ملط ہوسکتی ہیں جوکہ لوگوں کیلئے نقصان دہ ہے۔
دوسری بات:
خواتین کا مردوں کے ساتھ کام کرنے پر عموماً خرابیاں اور خطرات پیدا ہوتے ہیں، چاہے خاتون با پردہ ہی کیوں نہ ہو، اس لئے کہ مرد اپنی فطرت کی وجہ سے خواتین کی طرف مائل ہوتے ہیں، اِسی طرح خواتین بھی مردوں کی طرف مائل ہوتی ہیں، پھر کافی دیر تک ایک جگہ اکٹھے رہنے کی وجہ سے ان میں بے تکلفی بھی پیدا ہوسکتی ہے، جو آنکھوں، اور گفتگو کیلئے بے لگامی کا باعث بنے گا، بلکہ بسا اوقات دونوں میں خلوت بھی ہوسکتی ہے، اِس سے بڑھ اور کیا ہوگا؟؟ اسی لئے شریعت نے اختلاط کو حرام قرار دیا ہے، یہی شریعت کا کمال اور بلند نظری ہے، اس لئے کہ شریعت کی بنیاد مصلحتوں کی ترویج اور مفاسد کے خاتمے پر ہے۔
اس بات کا بیان تفصیلی طور پر دیگر جوابات میں گزر چکا ہے اس لئے سوال نمبر: (1200) اور (97231) کا مطالعہ کریں۔
چنانچہ ہم آپکو یہی نصیحت کرینگے کہ خواتین کو مردوں کی جگہ پر ملازمت نہ دیں۔
واللہ اعلم .