الحمد للہ.
اول:
مسلمان شخص كے ليے نصرانى عورت سے شادى كرنا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ عفت و عصمت كى مالك ہو.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كل پاكيزہ چيزيں آج تمہارے ليے حلال كى گئيں اور اہل كتاب كا ذبيحہ تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہار ذبيحہ ان كے ليے حلال ہے، اور پاكدامن مسلمان عورتيں اور جو لوگ تم سے پہلے كتاب ديئے گئے ہيں ان كى پاكدامن عورتيں بھى حلال ہيں، جب تكہ تم ان كے مہر ادا كرو، اس طرح كہ تم ان سے باقاعدہ نكاح كرو يہ نہيں كہ علانہ زنا كرو يا پوشيدہ بدكارى كرو، منكرين ايمان كے اعمال ضائع اور اكارت ہيں، اور آخرت ميں وہ ہارنے والوں ميں سے ہيں المآئدۃ ( 5 ).
اس كے باوجود اس دور ميں اہل كتاب كى عورتوں سے شادى كرنے كى نصيحت نہيں كى جاتى كيونكہ اس ميں بہت زيادہ خطرات پائے جاتے ہيں، اور خاص كر اولاد كى تربيت كے متعلق.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چنانچہ اگر كتابى عورت عفت و عصمت ميں معروف ہو اور فحش وسائل سے دور ہو تو جائز ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كى عورتيں اور ان كا ذبيحہ ہمارے ليے مباح قرار ديا ہے.
ليكن اس دور ميں جو ان عورتوں سے شادى كرتے ہيں اس ميں بہت بڑا شر اور برائى ہے، اس ليے كہ ہو سكتا ہے وہ اپنے خاوند كو عيسائيت كى دعوت ديں، اور اس كے باعث اس كى اولاد عيسائى بن جائے، اس ليے بہت خطرہ ہے، اور مومن كے ليے احتياط اسى ميں ہے كہ وہ اہل كتاب كى عورت سے شادى نہ كرے، اور اس ليے كہ اس سے عمومى طور پر فحاشى ميں پڑنے كا خطرہ رہتا ہے اور اولاد كسى اور كى ہو جائے...
ليكن اگر اس كى ضرورت پيش آئے تو اس ميں كوئى حرج نہيں تا كہ وہ اپنى شرمگاہ كو محفوظ بنا سكے اور نظريں نيچى كر سكے، ليكن شادى كے بعد وہ اسے دين اسلام كى دعوت دينے كى كوشش كرے، اور اس كے شر و برائى سے بچ كر رہے كہ كہيں وہ اسے كفر كى طرف نہ لے جائے، يا اس كى اولاد كو كافر نہ بنا دے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 172 ).
اس سے آپ يہ جان سكتے ہيں كہ اولاد كا عيسائى بن جانا سب سے ممنوع چيز ہے جو ايك عيسائى عورت سے شادى كرنے پر مرتب ہوتا ہے كہ كہيں اس كے نتيجہ ميں اولاد بھى عيسائى نہ بن جائے، اور بلاشك آپ كے ليے جائز نہيں كہ آپ اسے اس كى كسى بھى حالت ميں اجازت ديں كہ وہ اسے چرچ لے جائے اور عيسائيت بنانے كى رسم ادا كرے.
آپ كو چاہيے تھا كہ شادى سے قبل آپ اس سلسلہ ميں اس سے بات كرتے كہ آپ كى اولاد مسلمان ہوگى اور انہيں عيسائى نہيں بنايا جا سكتا، اور يہ مسئلہ نہ تو مناقشہ كا محتاج ہے اور نہ ہى اس ميں كوئى لين دين كيا جا سكتا ہے.
اب آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے بچے كے دين كى حفاظت كريں اور اسے عيسائى ہونے سے محفوظ ركھيں، اور اگر آپ كى بيوى اسے عيسائى بنانے پر مصر ہو تو آپ كے ليے اس كے علاوہ كوئى اور راہ نہيں كہ بيوى كو اپنے ساتھ اپنےملك ميں ركھيں يا پھر صرف بچے كو اپنے پاس لے آئيں چاہے اس ميں بيوى كو طلاق بھى دينا پڑے اور آپ كى عليحدگى ہو جائے، يہ مسئلہ بہت بڑا ہے جو كہ كفر اور ايمان كا مسئلہ ہے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.
اور آپ يہ بھى علم ميں ركھيں كہ بچے كو بپتسمہ كرانے كى رسم كا معنى يہ نہيں كہ وہ بالفعل عيسائى ہو جائيگا بلكہ وہ اپنے باپ كے دين كے تابع ہوتا ہوا مسلمان ہى رہےگا.
اور اس وقت تك وہ عيسائى نہيں ہو سكتا جب تك وہ عاقل ہو كر عيسائيت كو خود اختيار نہ كر لے، ليكن يہ بپتسمہ كى رسم ميں اس بچے كا كوئى اختيار نہيں ہے، اور نہ ہى يہ چيز اس كے دين پر اثرانداز ہوگى جس دين پر اللہ نے بچے كو پيدا كيا ہے وہ فطرت اسلام ہے.
چنانچہ اس بچے كى حفاظت كے ليے ہر وسيلہ استعمال كرنا اور كوشش كرنى چاہيے، اور اس كو عيسائت كى تعليم دينے كى راہ ميں حائل ہونا ضرورى ہے، آپ كو علم ہونا چاہيے كہ آپ اس كے ذمہ دار ہيں، اور اس عظيم امانت ميں يہ بہت بڑى خيانت اور كوتاہى ہے كہ آپ اسے اللہ كے ساتھ كفر كرنے ديں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ اور آپ كى اولاد كى حفاظت فرمائے، اور آپ سب سے ہر قسم كى برائى اور شر كو دور ركھے.
واللہ اعلم .