الحمد للہ.
مسئلہ سرجيہ ايك ايسا مسئلہ ہے جو طلاق كے مسائل عصور متقدمہ ميں سب سے زيادہ اختلاف والا ہے، حتى كہ اس ميں مستقل كئى كتابيں بھى لكھى گئيں، اور اس كے بارہ ميں لمبے مناقشے بھى ہوئے، يہاں ہم اس كے بارہ ميں مختصر طور پر كچھ بيان كرتے ہيں:
اول: مسئلہ كى صورت:
آدمى اپنى بيوى كو كہے: ميں نے تجھے طلاق دى تو تم اس سے قبل ہى تين طلاق والى "
اگر اسے طلاق دے تو اس كا حكم كيا ہوگا ؟
كيا اسے وہ طلاق واقع ہوگى جو اسے دى گئى ہے يا كہ وہ تين طلاق واقع ہونگى جو معلق كى گئى ہيں ؟ يا كوئى بھى طلاق واقع نہيں ہو گى ؟
دوم:
اس كى وجہ تسميہ:
اسے سرجيہ اس ليے كہا جاتا ہے كہ يہ امام فقيہ شيخ الاسلام ابو العباس احمد بن عمر بن سريج القاضى الشافعى كى طرف منسوب كيا جاتا ہے، يہ شافعيہ كے بغداد ميں فقيہ تھے اور ( 306 ) ہجرى ميں فوت ہوئے، يہ امام شافعى كے اصحاب كے اصحاب كے طبقہ ميں شامل ہوتے ہيں، اور بعض علماء نے انہيں چوتھى صدى كے مجددين ميں شامل كيا ہے.
ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 14 / 201 ).
اسے ان كى جانب منسوب كرنے كا سبب يہ ہے كہ امام سرجى نے ہى سب سے پہلے فتوى ديا تھا كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوتى، تفصيل آگے بيان ہوگى.
سوم:
مسئلہ كى اہميت:
مسئلہ سرجيہ طلاق كے اہم اور خطرناك مسائل ميں شامل ہوتا ہے كيونكہ اس عبارت سے طلاق واقع نہ ہونے كا قول كہنے سے طلاق كا باب بالكل بند ہونا لازم آتا ہے، اور يہ عبارت كہنے والا ازدواجى ارتباط سے چھٹكارا ہى نہيں پاسكتا، اور شريعت اسلاميہ ميں يہ عظيم معاملہ ہے، كيونكہ طلاق ( اگرچہ بعض افراد اس كا غلط استعمال كرتے ہيں ) ہى بعض حالات ميں مقبول حل باقى رہ جاتا ہے، جيسا كہ ايك قول ہے: آگ سے رگ كو داغنا آخرى علاج ہے.
اس ليے جب طلاق كا باب ہى بند كر ديا جائے تو يہ عيسائيوں كے بعض فرقوں كے مشابہ ہو جائيگا كہ ان كے ہاں طلاق دينا مطلقا منع ہے، اور سارى فقہ اسلامى ميں اس كى كوئى مثال اور نظير نہيں ملتى.
چہارم:
اس مسئلہ كا حكم:
اس ميں علماء كے دو قول ہيں:
پہلا قول:
اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، نہ تو وہ جو اسى وقت دى گئى ہو اور نہ ہى معلق كردہ طلاق ( يعنى تين طلاق ) ابن سريج شافعى جن كى طرف يہ مسئلہ مسنوب ہے كا يہى اختيار ہے، اگرچہ بعض علماء نے ان سے اس قول كى نفى كى ہے، اور بہت سارے شافعى فقھاء نے اس ميں متابعت كى ہے، بلكہ بعض نے تو فتح القدير ميں اسے اكثر احناف كى طرف منسوب كيا ہے، اور صاحب " مجمع الانھر ( 1 / 414 ) نے اسے " المبسوط " سے نقل كيا ہے اور جس نے اس كے علاوہ كہا اس كا انكار كيا ہے.
اس كى دليل يہ ہے كہ: اگر تجھے طلاق كہنے پر فورى طلاق واقع ہو جائے تو پھر معلق كے حكم سے معلق كردہ اس سے پہلے واقع ہو جائيگى، اور اگر معلق كردہ ـ تين طلاق ـ واقع ہو جائيں تو پھر فورى طور پر دى گئى طلاق واقع نہ ہوگى؛ كيونكہ جب اسے تين طلاق ہوگئيں تو پھر بعد ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ وہ عورت تو اس كے نكاح سے نكل كر بائن ہو چكى ہے.
ان كا كہنا ہے: اسے " منطقيوں كى اصطلاح ميں " دور " كا نام ديا جاتا ہے، جو اس عبارت كے كہنے والے كى سب طلاق كے حكم كو ختم كر ركھ ديتى ہے.
دوسرا قول:
طلاق واقع ہو جائيگى، اور اس " دور " كو صحيح دور شمار نہيں كيا جائيگا، جمہور اہل علم احناف شافيہ اور حنابلہ كا يہى قول ہے، ليكن ان ميں واقع شدہ طلاق كى تعداد ميں اختلاف ہے اور بعض نے تو پہلے قول پر بہت شديد انكار كيا ہے، اور اس كے عدم جواز اور اس كے فيصلہ نہ كرنے كا فتوى ديا ہے، مثلا عز بن عبد السلام وغيرہ نے.
جيسا كہ حاشيہ رد المختار ( 3 / 229 - 230 ) اور البحر الرائق ( 3 / 255 ) اور شرح مختصر خليل للخرشى ( 1 / 52 ) اور تحفۃ المحتاج ( 8 / 114 - 115 ) اور اقناع فى حل الفاظ ابى شجاع للشربينى ( 2 / 109 ) اور المغنى ( 7 / 332 ) اور كشاف القناع ( 5 / 298 ) ميں ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں طلاق واقع ہونے كا استدلال كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" كيونكہ طلاق مكلف اور اختيار والے شخص كى جانب سے صحيح نكاح ميں ہوتى ہے، اس ليے اس كا واقع ہونا ضرورى ہے بالكل اسى طرح جيسے يہ صفت نہ بنائى جائے، اور اس ليے بھى عمومى نصوص وقوع طلاق كا تقاضا كرتى ہيں مثلا اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور پھر اگراس كوتيسرى بار طلاق دے دى تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك وہ عورت اس كے سوا دوسرے سے نكاح نہ كرے البقرۃ ( 230 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور طلاق والى عورتيں تين حيض انتظار كريں .
اور اسى طرح باقى سب نصوص بھى.
اور اس ليے بھى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے طلاق مصلحت كى خاطر مشروع كى ہے، جو طلاق كے ساتھ ہى متعلق ہے، اور انہوں نے جو بالكل ہى طلاق كى ممانعت كر دى ہے وہ اس كى مشروعيت كو باطل كر ديتى ہے، اس طرح اس كى مصلحت بھى فوت ہو جائيگى، چنانچہ صرف رائے اور تحكم كى بنا پر ايسا كرنا جائز نہيں " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 332 ).
رہا پہلے قول كا شبہ تو اس كے كئى ايك طويل جوابات ہيں، ان ميں سب سے ظاہر اور آسان وہ ہے جو شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے ديا ہے وہ كہتے ہيں:
" جس " دور " كا انہوں نے گمان كيا ہے وہ باطل ہے، ان كا گمان ہے كہ جب اس وقت دى گئى طلاق واقع ہو جائيگى تو معلق كردہ بھى واقع ہو جائيگى، يہ تو اس وقت واقع ہو گى جب يہ معلق كردہ صحيح ہو، حالانكہ يہ تعليق يعنى معلق كردہ ہى باطل ہے؛ كيونكہ يہ ايسى چيز پر مشتمل ہے جو شريعت ميں محال ہے، وہ يہ كہ پہلے سے تين طلاق كے بعد طلاق كا وقوع كيونكہ يہ شريعت ميں محال ہے، اور مسئلہ سرجيہ شريعت ميں اس محال چيز كو ضمن ميں ليے ہوئے ہے، چنانچہ يہ باطل ہوگا.
اور اگر اس نے يہ اعتقاد ركھتے ہوئے طلاق كى قسم اٹھائى كہ وہ اس سے حانث نہيں ہوگا، يعنى اس كى قسم نہيں ٹوٹےگى پھر بعد ميں اسے واضح ہوا كہ يہ جائز نہيں تو وہ اپنى بيوى كو اپنے پاس ہى ركھے اور جو كچھ ہوا ہے اس ميں طلاق نہيں ہوئى اور مستقبل ميں وہ اس سے توبہ كرے.
حاصل يہ ہوا كہ اگر خاوند بيوى كو كہے: اگر ميں نے تجھے طلاق دى تو تم اس سے قبل تين طلاق والى ہو، اور اسے طلاق دے دى تو راجح قول كے مطابق دى گئى طلاق واقع ہو جائيگى، اور معلق كردہ واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ اگر معلق كردہ واقع ہو تو يہ تين طلاق ہيں اس ليے دى گئى طلاق واقع نہيں ہو گى؛ اس ليے كہ يہ طلاق كى تعداد سے ہى زائد ہے " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 137 - 138 ).
يہى قول راجح ہے جس كا فتوى بھى دينا چاہيے اور عمل بھى اس پر كيا جائے، اور اس مسئلہ ميں جو وسعت اور تفصيل معلوم كرنا چاہے وہ درج ذيل كتب كا مطالعہ كرے اس ميں تفصيلى بحث كى گئى ہے:
اعلام الموقعين ( 1 / 251 - 256 ) فتاوى السبكى ( 2 / 298 – 303 – 313 - 314 ) الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 4 / 180 - 197 ) الاشباہ و النظائر ( 380 - 381 ) وغيرہ.
واللہ اعلم .