الحمد للہ.
حج بدل كرنے والے كے ليے ضرورى نہيں كہ وہ اسى علاقے سے حج كرنے جائے جہاں وہ شخص رہتا ہے جس كى جانب سے حج كيا جا رہا ہے، اور نہ ہى اس كے ليے يہ ضرورى ہے كہ وہ اس كے ميقات سے جا كر احرام باندھے، بلكہ حج بدل كرنے والا شخص اپنے ميقات سے احرام باندھےگا، اہل يمن كى عورت كى جانب سے جدہ ميں رہنے والے شخص كے ليے حج بدل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور وہ احرام بھى جدہ سے ہى باندھےگا.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك افريقى شخص اپنى والدہ كى جانب سے حج بدل كرانا چاہتا ہے وہ كيا كرے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" مذكورہ شخص كے ليے مكہ يا كسى اور علاقے ميں رہنے والے شخص كو اپنى والدہ كى جانب سے حج بدل كران جائز ہے اگر اس كى والدہ فوت ہو چكى ہے يا پھر اس كى والدہ بڑھاپے يا لا علاجى دائمى بيمارى كى بنا پر خود حج نہيں كر سكتى تو وہ كسى دوسرے كو والدہ كى جانب سے حج كروا سكتا ہے "
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.