منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

نماز ميں مرد و عورت كے مابين فرق

1106

تاریخ اشاعت : 01-05-2006

مشاہدات : 13083

سوال

كيا نماز كى ادائيگى ميں عورت و مرد كے مابين كوئى فرق ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اصل ميں عورت سب دينى احكام ميں مرد كى طرح ہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" عورتيں مردوں كى طرح ہى ہيں "

مسند احمد، صحيح الجامع حديث نمبر ( 1983 ) ميں اسے صحيح قرار ديا گيا ہے.

ليكن اگر عورتوں كے متعلق كسى چيز ميں خصوصيت كى دليل مل جائے تو اس ميں وہ مردوں سے مختلف ہونگى، اور اس موضوع ميں نماز كے اندر عورت كے بارہ ميں جو علماء نے ذكر كيا ہے وہ درج ذيل ہے:

- عورت پر اذان اور اقامت نہيں ہے، كيونكہ اذان ميں آواز بلند كرنا مشروع ہے، اور عورت كے ليے آواز بلند كرنا جائز نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس ميں ہميں كسى اختلاف كا علم نہيں .

ديكھيں: المغنى مع الشرح الكبير ( 1 / 438 ).

- عورت كے چہرے كے علاوہ باقى سب كچھ نماز ميں چھپائے گى، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى نوجوان عورت كى نماز اوڑھنى كے بغير قبول نہيں كرتا"

رواہ الخمسۃ.

عورت كے ٹخنے اور قدموں ميں اختلاف ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نماز ميں آزاد عورت كا سارا بدن چھپانا واجب ہے، اگر اس ميں سے كچھ بھى ظاہر ہو گيا تو اس كى نماز صحيح نہيں ہو گى، ليكن اگر بالكل تھوڑا سا ہو، امام مالك، اوزاعى اور امام شافعى كا يہى قول ہے.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 328 ).

- عورت ركوع اور سجدہ ميں اپنے آپ كو اكٹھا كرے گى اور كھلى ہو كر نہ رہے كيونكہ يہ اس كے ليے زيادہ پردہ كا باعث ہے.

ديكھيں: المغنى ( 2 / 258 ).

ليكن اس كا ذكر كسى حديث ميں نہيں ملتا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے " المختصر " ميں كہا ہے كہ: عورت اور مرد كے مابين نماز ميں كوئى فرق نہيں، ليكن اتنا ہے كہ عورت كے ليے اكٹھا ہونا اور سجدہ ميں اپنا پيٹ رانوں سے لگا لينا مستحب ہے، كيونكہ يہ اس كے ليے زيادہ پردہ كا باعث ہے، اور زيادہ پسنديدہ ہے، ركوع اور سارى نماز ميں. انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 429 ).

- عورت كے ليے عورت كى جماعت ميں نماز ادا كرنا مستحب ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ام ورقہ كو حكم ديا تھا كہ وہ اپنے گھر والوں كى امامت كروايا كرے"

اس مسئلہ ميں علماء كرام كے مابين اختلاف پايا جاتا ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ المغنى اور المجموع ديكھيں، اور اگر غير محرم مرد نہ سن رہے ہوں تو عورت اونچى آواز سے قرآت كرے گى.

ديكھيں: المغنى ( 2 / 202 ) اور المجموع للنووى ( 4 / 84 - 85 ).

- عورتوں كے ليے گھروں سے باہر مسجدوں ميں جا كر نماز ادا كرنا جائز ہے، ليكن ان كى اپنے گھروں ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى كى بنديوں كو مسجدوں كى طرف نكلنے سے منع نہ كرو، اور ان كے گھر ان كے ليے بہتر ہيں"

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 983 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

- اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع" ميں كہتے ہيں:

عورتوں كى جماعت مردوں كى جماعت سے كچھ اشياء ميں مختلف ہے:

1 - جس طرح مردوں كے حق ميں ضرورى ہے اس طرح عورتوں كے ليے ضرورى نہيں.

2 - عورتوں كى امام عورت ان كے وسط ميں كھڑى ہو گى.

3 - اكيلى عورت مرد كے پيچھے كھڑى ہو گى نہ كہ مرد كى طرح امام كے ساتھ.

4 - جب عورتيں مردوں كے ساتھ صفوں ميں نماز ادا كريں تو عورتوں كى آخرى صفيں ان كى پہلى صفوں سےافضل ہونگى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 455 ).

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كا فائدہ يہ ہے كہ اس سے اختلاط كى حرمت كا علم ہوتا ہے. انتہى

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد