جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

خاوند كے ليے شرط ركھى كہ بيٹى باپ كى خدمت كے ليے ميكے ميں رہے گى ليكن بعد ميں اختلافات ہو گئے

111850

تاریخ اشاعت : 04-04-2011

مشاہدات : 4491

سوال

ايك شخص نے اپنى بيٹى كى شادى ايك شخص سے كى اور عقد نكاح سے قبل يہ شرط ركھى كہ اس كى بيٹى ميكے ميں رہ كر باپ كى خدمت كريگى، ليكن بعد ميں ان كے اختلافات ہوئے جس كى بنا پر داماد اور سسر ميں تعلقات خراب ہو گئے اور داماد كو گھر سے نكال ديا، اور باپ نے بيٹى كو خاوند كے ساتھ جانے سے روك ديا، ليكن بيٹى خاوند كے پاس جانا چاہتى ہے، اس سلسلہ ميں كيا حكم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فقھاء كرام نے عقد نكاح ميں شروط كے بارہ ميں كتاب النكاح ميں خاص باب باندھ كر اس مسائل ميں بحث كى ہے، اور اس ميں صحيح شروط بھى بيان كى جن كا پورا كرنا ضرورى ہے اور معتبر شروط بھى اور غير معتبر بھى، اور اس كے برخلاف فاسد شروط بھى بيان كى ہيں جن ميں سے كچھ تو ايسى ہيں جن سے اصلا عقد نكاح ہى باطل ہو جاتا ہے، اور كچھ ايسى ہيں جن كے ساتھ نكاح صحيح رہتا ہے، اور يہ شروط خاوند اور بيوى كے ساتھ مخصوص ہيں.

جب يہ معلوم ہو گيا تو وہ شرط جو سسر نے داماد پر لگائى تھى اس كى كوئى قيمت نہيں، اور نہ ہى اس شرط كا التزام كرنا ضرورى ہے، سسر كو حق حاصل نہيں كہ وہ خاوند اور بيوى ميں حائل ہو جبكہ وہ دونوں صحيح حالت ميں ہيں اور بيوى بھى اپنے خاوند پر راضى ہے.

كيونكہ لڑكى كا والد شادى كے بعد بيٹى كے معاملہ ميں كچھ بھى حق نہيں ركھتا، صرف اتنا ہے كہ وہ شادى ميں ولى ہے جب بھى كوئى رشتہ آئے جو كفؤ ہو اور دين و امانتدار ہو تو وہ اس كى شادى كر دے " انتہى .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب