الحمد للہ.
زکاۃ کے مستحقین آٹھ ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں بیان فرمایا ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]
پہلے ان مصارف زکاۃ کا بیان سوال نمبر: (46209) کے جواب میں گزر چکا ہے۔
اور جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ فقیر یا مسکین کو اتنی مقدار میں زکاۃ دی جائے گی جو اس کی اور اس کے اہل خانہ کی ایک سال کی ضروریات کیلئے کافی ہو، ایک سال کی مدت اس لیے مقرر کی ہے کہ زکاۃ ایک سال بعد ادا کی جاتی ہے۔
چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (23/317) میں ہے کہ:
"فقیر اور مسکین شخص کو دی جانے والی زکاۃ کی مقدار:
جمہور [یعنی مالک، شوافع کے ہاں ایک قول، اور حنابلہ کے ہاں ایک موقف کے مطابق] اس بات کے قائل ہیں کہ فقراء یا مساکین میں شامل زکاۃ کے مستحق افراد کو اتنی مقدار میں زکاۃ دی جائے گی جس سے ان کا اور ان کے اہل خانہ کا ایک سال تک گزر بسر ہو جائے یا بہتر انداز سے سال بیت جائے، تاہم اس سے زیادہ نہ دیا جائے، فقہائے کرام نے سال کی حد بندی اس لیے کی ہے کہ زکاۃ عام طور پر ایک سال بعد دی جاتی ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے اہل خانہ کیلئے ایک سال کا راشن محفوظ کیا تھا" انتہی
اس موقف کے مطابق فقیر یا مسکین شخص کو زکاۃ کا مال مکان کی خریداری کیلئے یا مکان کی تعمیر کیلئے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ مقدار سالانہ ضروریات سے زیادہ ہوگی، تاہم پورے سال کیلئے مکان کا کرایہ دیا جا سکتا ہے۔
امام شافعی اور یہی موقف ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی ہے، اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پسند کیا ہے کہ فقیر یا مسکین کو اتنی زکاۃ دی جائے گی کہ اس کی محتاجی باقی نہ رہے، چنانچہ انہوں نے ایک سال کی قید نہیں لگائی۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (23/317) میں ہے کہ:
"شافعی فقہاء نے صراحت کیساتھ جبکہ حنبلی فقہاء نے ایک روایت کے مطابق یہ موقف اختیار کیا ہے کہ فقیر اور مسکین کو اتنی مقدار میں مال دیا جائے گا جس سے وہ فاقہ کشی سے باہر آجائیں، یعنی ان کی ایسی حالت ہو جائے کہ انہیں دوبارہ مانگنے کی ضرورت نہ پڑے، اس کی دلیل قبیصہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (صرف تین لوگوں کو مانگنے کی اجازت ہے، ایک شخص جس کا مال کسی آفت کی وجہ سے تباہ ہوگیا، تو اسے اتنا مانگنے کی اجازت ہے جس سے اس کی زندگی کا پہیہ چل پڑے۔۔۔) الحدیث۔
چنانچہ ان فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر وہ شخص کسی چیز کا کاریگر تھا تو اسے اس کے مطلوبہ اوزار خرید کر دے دیے جائیں گے، چاہے اوزار سستے ہوں یا مہنگے، تا کہ اپنی محنت کر کرے اپنی ضروریات پوری کر سکے، اور اگر تجارت کرنا جانتا ہے تو اسی اعتبار سے اسے زکاۃ کا مال دیا جائے گا، اور اگر کھیتی باڑی کرنا جانتا ہے تو اس کیلئے اتنی زمین خریدی جائے گی جس کا اناج اسے کافی ہو" انتہی
"الاختيارات" (ص 105) میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فقیر شخص زکاۃ میں سے صرف اتنا ہی لے گا جس سے وہ غنی ہو جائے، چاہے یہ مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، یہ موقف امام احمد کے مذہب میں دو میں سے ایک ہے، اور شافعی کا یہی موقف ہے" انتہی
جبکہ مرداوی رحمہ اللہ "الإنصاف" (7/255) میں کہتے ہیں:
"[حنبلی] مذہب میں صحیح موقف یہی ہے کہ فقیر اور مسکین کو ایک سال کا خرچہ لینا جائز ہے، جبکہ امام احمد سے یہ بھی منقول ہے کہ تجارت یا پیشہ وری کیلئے ضروری مقدار میں زکاۃ لے سکتا ہے۔۔
تاہم آجری اور شیخ تقی الدین ابن تیمیہ نے اس موقف کو پسند کیا ہے کہ فقیر اتنی مقدار میں زکاۃ یک مشت لے سکتا ہے جس سے وہ غنی ہو جائے، چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو" انتہی مختصراً
امام شافعی رحمہ اللہ "الأم" (8/256) میں رقمطراز ہیں:
"فقیر شخص کو زکاۃ کی زیادہ مقدار دینے کی کوئی حد نہیں ہے، اتنا ہے کہ وہ غربت سے باہر نکل جائے چاہے اس کیلئے تھوڑی مقدار دینی پڑے یا زیادہ" انتہی
امام شافعی کی اس بات پر زکریا انصاری نے "أسنى الطالب" (1/100) میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"امام شافعی کا مقصد یہ ہے کہ غریب شخص اس حالت میں آ جائے کہ کبھی سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے، چنانچہ ہر غریب کو اتنا مال دیں کہ وہ اسے تجارت میں لگا کر رأس المال بنا لے، اور اس کے نفع سے اپنی ضروریات پوری کرے، اور پڑھائی لکھائی میں مصروف لوگ جنہیں تجارت کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا ان کیلئے زمین خرید دے جس کا اناج ان کیلئے کافی ہو، اور اگر کسی کے پاس کوئی پیشہ ورانہ مہارت ہے تو اس کیلئے مطلوبہ اوزار خرید کر دے دے" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (6/221) میں کہتے ہیں:
"فقیر شخص کو پورے سال کا خرچ دیا جائے، کیونکہ زکاۃ ہر سال ادا کی جاتی ہے [تو آئندہ سال پھر اسے زکاۃ مل جائے گی] اور اگر یہ کہا جائے کہ غریب شخص کو اتنا دیا جائے کہ اس کی غربت ختم ہو جائے تو یہ موقف بھی مضبوط ہے، بالکل یہی بات مسکین کے بارے میں بھی ہے" انتہی
اس موقف کے مطابق ہم غریب شخص کو اتنی مقدار میں رقم دے سکتے ہیں جس سے اپنے اور اہل خانہ کیلئے مکان خرید سکے، اسی طرح اگر وہ کاریگر ہے تو آلات خریدنے کیلئے اسے رقم دے سکتے ہیں، یا اتنی مقدار میں رقم دے سکتے ہیں جس سے کوئی مکان خرید کر کرائے پر دے دے، اور اس کی آمدن سے گھر چلائے، اور اگر اس کے پاس کوئی پیشہ ورانہ مہارت یا تجارتی فن نہیں ہے تو پھر رہائشی مکان کی خریداری کیلئے رقم دے سکتے ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے پہلا موقف اختیار کیا ہے کہ فقیر شخص کو اتنی بڑی رقم نہیں دی جا سکتی کہ زکاۃ کی رقم سے مکان خرید سکے، تاہم رہائشی مکان کا کرایہ زکاۃ سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک غریب آدمی کے بارے میں پوچھا گیا کہ :
"اس کے ساتھیوں نے مل کر اپنی زکاۃ جمع کی تا کہ اپنے غریب ساتھی کیلئے مکان خرید سکیں تو انہوں نے اپنی زکاۃ جمع کر کے اس کیلئے مکان خرید لیا، یہ واضح رہے کہ زکاۃ ادا کرنے والوں کا کوئی مقصد نہیں ہے کہ مکان خریدا جائے یا کچھ اور کیا جائے، ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ زکاۃ ادا ہو جائے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"کسی فقیر شخص کیلئے زکاۃ کی رقم سے مکان کی خریداری کو میں جائز نہیں سمجھتا، کیونکہ مکان کی خریداری کیلئے خطیر رقم چاہیے، اور اگر غریب شخص کی ضرورت پوری کرنی ہے تو اس کیلئے کرائے پر مکان لے کر دیا جا سکتا ہے، میں اس کیلئے مثال دیتا ہوں:
اگر کسی غریب شخص کو دس سال کیلئے مکان کرائے پر چاہیے تو یہ 10000 ہزار ریال میں مل جائے گا، لیکن اگر اس کیلئے ہم مکان خریدنے لگیں تو ایک یا دو لاکھ ریال سے کم میں نہیں ملے گا، اس لیے مکان کی خریداری کیلئے زکاۃ ادا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس طرح دیگر فقراء کا حق مارا جائے گا، چنانچہ ہم کہتے ہیں غریب آدمی کیلئے مکان کرائے پر لے لیں، اور جب کرائے کی مدت ختم ہو جائے تو ہم دوبارہ کوئی اور مکان کرائے پر لے لیں گے، لیکن زکاۃ کے مال سے مکان خریدنا میرے نزدیک جائز نہیں ہے۔
ہاں! اگر انہیں کسی اہل علم نے اس کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے تو یہ مسئلہ اجتہادی ہے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب"
واللہ اعلم.