الحمد للہ.
طلاق والى عورت كى تين حالتيں ہيں:
1 ـ يا تو اسے رجعى طلاق ہو گى مثلا پہلى يا دوسرى طلاق والى عورت.
اس ليے اگر بيوى كى عدت ميں خاوند فوت ہو جائے تو علماء كا اجماع ہے كہ وہ اپنے خاوند كى وارث بنےگى، اس ليے كہ طلاق رجعى والى عورت اس وقت تك بيوى ہے جب تك وہ عدت ميں ہے، اور جب اس كى عدت تين ماہ گزر جائے تو وہ وارث نہيں ہوگى، كيونكہ طلاق دينے والے خاوند سے عدت گزرنے كے بعد وہ اجنبى عورت بن گئى ہے.
2 ـ طلاق بائن ہو، مثلا تيسرى طلاق والى عورت: اور طلاق خاوند كى صحت كى حالت ميں ہو.
اگر اس كا خاوند فوت ہو گيا تو علماء كے اجماع كے مطابق وہ وارث نہيں بنےگى، كيونكہ اس كا اپنے طلاق دينے والے خاوند سے تعلق ختم ہو چكا ہے.
ـ طلاق بائن ہو مثلا تيسرى طلاق والى عورت: اور يہ طلاق خاوند كى مرض الموت ميں ہو اور خاوند پر تہمت ہو كہ اس نے طلاق اس ليے دى تا كہ وہ اسے وراثت سے محروم كر سكے تو اس حالت ميں بيوى كے وارث ہونے ميں علماء كرام اختلاف كرتے ہيں:
امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
كہ وہ وارث نہيں بنےگى.
اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
وہ جب تك عدت ميں ہے وارث ہوگى.
اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جب تك وہ كسى دوسرے شخص سے شادى نہيں كرتى اس وقت تك وارث بنےگى، تا كہ خاوند كے مقصد كے خلاف معاملہ كيا جائے.
ديكھيں: المغنى ( 9 / 194 - 196 ).
اور اس مسئلہ ميں معاصرين علماء كرام ميں سے امام احمد كے مسلك كو اختيار كرنے والوں ميں فضيلۃ الشيخ عبد
العزيز بن باز اور شيخ محمد بن عثيمين اور شيخ صالح بن فوزان الفوزان ہيں.
ديكھيں: الفوائد الجليۃ فى المباحث الفرضيۃ تاليف شيخ ابن باز ( 6 ) اور تحقيقات المرضيۃ فى المباحث الفرضيۃ تاليف شيخ صالح الفوزان ( 33 - 36 ).
فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا فوت شدہ خاوند كى مطلقہ عورت عدت يا عدت كے بعد خاوند كى وارث ہو گى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
طلاق شدہ عورت كا خاوند جب عورت كى عدت ميں فوت ہو جائے تو يا وہ طلاق رجعى ہو گى يا پھر غير رجعى:
اگر طلاق رجعى ہو تو يہ عورت بيوى كے حكم ميں ہے اور يہ عدت طلاق كى عدت سے فوت شدہ خاوند كى عدت ميں منتقل ہو جائيگى، اور طلاق رجعى يہ ہے كہ عورت كو دخول كے بعد بغير عوض كے طلاق دى گئى ہو اور طلاق پہلى يا دوسرى ہو بار ہو.
چنانچہ جب اس عورت كا خاوند فوت ہو جائے تو يہ عورت اپنے خاوند كى وارث ہو گى كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
طلاق والى عورتيں اپنے آپ كو تين حيض تك روكے ركھيں انہيں حلال نہيں كہ اللہ نے جو ان كے رحم ميں بچہ پيدا كيا ہے وہ اسے چھپائيں، اگر انہيں اللہ تعالى پر اور قيامت كے دن پر ايمان ہو، ان كے خاوند اس مدت ميں انہيں لوٹانے كا پورا حق ركھتے ہيں، اگر ان كا ارادہ اصلاح كا ہو اور عورتوں كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر مردوں كے ہيں اچھائى كے ساتھ البقرۃ ( 228 ).
اور ارشاد بارى تعالى ہے:
اے نبى ( اپنى امت سے كہہ ديں ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دينا چاہو تو ان كى عدت ( كے دنوں كے آغاز ) ميں انہيں طلاق دو، اور عدت كا حساب ركھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہيں ان كے گھروں سے نكالو اور نہ ہى وہ خود نكليں، ہاں يہ اور بات ہے كہ وہ كھلى برائى كر بيٹھيں، يہ اللہ كى مقرر كردہ حديں ہيں جو شخص اللہ كى حدود سے آگے بڑھ جائے اس نے يقينا اپنے اوپر ظلم كيا، تم نہيں جانتے شايد اس كے بعد اللہ كوئى نئى بات پيدا كر دے الطلاق ( 1 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے مطلقہ بيوى كو حكم ديا ہے كہ وہ عدت كے دوران اپنے خاوند كے گھر ميں ہى رہے اللہ كا فرمان ہے:
نہ تم انہيں ان كے گھروں سے نكالو اور نہ ہى وہ خود نكليں، ہاں يہ اور بات ہے كہ وہ كھلى برائى كر بيٹھيں، يہ اللہ كى مقرر كردہ حديں ہيں جو شخص اللہ كى حدود سے آگے بڑھ جائے اس نے يقينا اپنے اوپر ظلم كيا، تم نہيں جانتے شايد اس كے بعد اللہ كوئى نئى بات پيدا كر دے الطلاق ( 1 ).
اس سے مراد رجوع ہے.
ليكن اگر وہ ايسى مطلقہ ہو جس كا خاوند اچانك فوت ہو جائے اور اس كى طلاق بائن ہو يعنى تيسرى طلاق، يا پھر بيوى نے خاوند كو طلاق كا معاوضہ ديا ہو، يا پھر فسخ نكاح كى عدت ميں ہو نہ كہ طلاق كى عدت ميں، تو پھر يہ عورت وارث نہيں بنےگى اور نہ ہى اس كى طلاق كى عدت خاوند كے فوت ہونے كى عدت ميں منتقل ہو گى.
ليكن يہاں ايك تيسرى حالت ميں طلاق بائن والى عورت وارث بنےگى وہ اس صورت ميں كہ جب خاوند اسے مرض الموت ميں طلاق دے اور اس پر تہمت ہو كہ وہ اسے اپنى وراثت سے محروم كرنا چاہتا ہے، تو اس حالت ميں وارث بنےگى چاہے اس كى عدت ختم ہو چكى ہو ليكن شرط يہ ہے كہ آگے شادى نہ كى ہو، ليكن اگر وہ آگے شادى كر ليتى ہے تو پھر اسے وراثت نہيں ملےگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى علماء بلد الحرام ( 334 ).
واللہ اعلم .