الحمد للہ.
آپ كے ليے اپنے آپ كو بانجھ كرنا جائز نہيں ہے، چاہے آپ اپنے خاوند سے بھى اس كا اتفاق كر ليں، جن حالات ميں نسل كى تحديد يا نسل ختم كرنا، يا اولاد پيدا نہ كرنا جائز ہے وہ حالات بہت ہى قليل ہيں؛ كيونكہ اصل تو نسل كى كثرت اور نسل پيدا كرنا ہے.
اور جن حالات ميں اولاد پيدا نہ كرنا جائز ہے ان ميں اولاد كا اپاہچ ہونا شامل نہيں، بلكہ يہ تو اس حالت ميں جائز ہے جب ماں كے ليے حمل انتہائى درجہ كا ضرر اور نقصاندہ ہو، علمى كميٹيوں اور فقھي اكيڈميوں اور عام علماء كرام نے بغير كسى ضرورت كے نسل كى تحديد اور بانجھ پن اختيار كرنا حرام ہونے كے فتوے ديے ہيں، اور پھر ضرورت بھى وہ شمار ہو گى جو ماہر اور ثقہ ڈاكٹر متعين كريں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" اولاد معذور پيدا ہونے كے خدشہ سے اولاد پيدا نہ ہونے دينا جائز نہيں، بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى پر توكل كرنا، اور اللہ كے ساتھ حسن ظن ركھنا ضرورى ہے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد العزيز آل شيخ.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ بكر ابو زيد.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 14 ).
اسلامى فقہ اكيڈمى كميٹى كى قرارات ميں درج ہے:
" مجمع فقہ اسلامى كے ممبران اور اس ( نسل منظم كرنے ) موضوع كے ماہرين كى جانب سے پيش كردہ رپورٹس ديكھنے اور اس كے متعلق كيے گئے مناقشات سننے كے بعد.
اور اس بنا پر كہ شريعت اسلاميہ ميں نكاح كے مقاصد ميں اولاد پيدا كرنا، اور نوع انسانى كى حفاظت كرنا ہے، اور اس اہم مقصد كو ختم نہيں كيا جا سكتا؛ كيونكہ اس مقصد كو ختم كرنا نصوص شرعيہ كے مخالف ہيں جن ميں كثرت نسل اور اس كى حفاظت اور ديكھ بھال كا اشارہ كيا گيا ہے، كہ نسل كى حفاظت ان پانچ كليات ميں شامل ہے جس كى ديكھ بھال كا شريعت حكم ديتى ہے يہ فيصلہ كيا گيا ہے كہ:
اول:
كوئى بھى ايسا قانون جارى كرنا جائز نہيں جو خاوند اور بيوى كے ليے اولاد پيدا كرنے كى آزادى كو سلب كر كے تحديد نسل كرنے كا باعث ہو.
دوم:
مرد يا عورت ميں اولاد پيدا كرنے كى صلاحيت كو ختم كرنا حرام ہے، اور يہ بانجھ پن كے نام سے معروف ہے، جب تك اس كو ختم كرنے كے ليے شرعى اصولوں اور معيار كے مطابق كوئى ضرورت پيش نہ آ جائے.
سوم:
اولاد پيدا كرنے ميں وقتى اور مدت ميں كنٹرول كرنا جائز ہے تا كہ حمل ميں وقفہ زيادہ ہو، يہ بھى اس وقت جب كوئى شرعى اصول كے مطابق ضرورت پيش آ جائے اور خاوند و بيوى اس كو چاہيں تو وقتى طور پر حمل نہ ٹھرنے دينا جائز ہے، اس ميں دونوں كا مشورہ اور رضامندى ضرورى ہے، اور شرط يہ ہے كہ ايسا كرنے ميں كوئى نقصان و ضرر نہ ہوتا ہو، اور پھر وسيلہ بھى مشروع ہو، اور ٹھرے ہوئے حمل پر زيادتى نہ كى گئى ہو " انتہى
واللہ اعلم.
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" مرد كے ليے ايسى ادويات استعمال كرنا حرام ہيں جو كلى طور پر اس كى شہوت ختم كر ديں، اسى طرح عورت كے ليے حمل ختم كرنے كى ادويات استعمال كرنا حرام ہيں " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 30 / 268 ).
واللہ اعلم .