الحمد للہ.
قبول ميں اس رشتہ كو مقدم كيا جائيگا جو لڑكى كو پسند ہے، اس ليے اگر لڑكى ايك شخص كو معين كرتى ہے اور والد كسى اور شخص كو اور والدہ كسى اور شخص كو تو اس صورت ميں بات لڑكى كى مانى جائيگى؛ كيونكہ اس نے ہى خاوند كے ساتھ رہنا ہے، اور وہى شريك حيات بننے والى ہے.
ليكن اگر فرض كريں كہ جو رشتہ لڑكى نے اختيار كيا ہے وہ دين اور اخلاق ميں كفو و مناسب نہيں تو پھر اس كى رائے تسليم نہيں كى جائيگى، چاہے وہ والد كے ا ختيار كردہ رشتہ كا انكار بھى كر دے اور بغير شادى ہى رہے.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو تم اس سے ( اپنى بيٹى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا "
اور جب والدہ اور والد اختلاف كرتے ہوئے ماں ايك رشتہ اختيار كرے اور والد دوسرا تو پھر جس لڑكى كا رشتہ آيا ہو اس لڑكى سے دريافت كيا جائيگا كہ وہ كس رشتہ كو چاہتى ہے " انتہى
فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ .