الحمد للہ.
جس شخص نے بھى اپنى بيوى كو دخول سے قبل طلاق دے دى اگر تو يہ طلاق ايك كلمہ كے ساتھ ہو مثلا تجھے تين طلاق تو اس ميں اہل علم كا اختلاف پايا جاتا ہے:
جمہور اہل علم كہتے ہيں كہ تين طلاق واقع ہو جائينگى اور وہ اس سے بائن كبرى ہو جائيگى اس كے ليے حلال اسى وقت ہو گى جب وہ كسى اور سے نكاح كرے.
ليكن بعض اہل علم كہتے ہيں كہ ايك طلاق ہو گى ليكن وہ اس سے بائن صغرى ہوگى كيونكہ يہ دخول سے قبول طلاق شدہ ہے وہ اسكے ليے نئے نكاح كے ساتھ حلال ہوگى، عطاء و طاؤس، سعيد بن جبير، ابو شعثاء، عمرو بن دينار كا يہى قول ہے اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور دور حاضر كے كئى ايك علماء نے بھى يہى اختيار كيا ہے، جن ميں شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہم اللہ شامل ہيں.
ديكھيں: المغنى ( 7 / 282 ) اور فتاوى الشيخ ابن باز ( 19 / 146 ) اور الشرح الممتع ( 13 / 40 ).
اور اگر طلاق متفرق كلمات سے ہو مثلا كہے تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق اور يہ دخول سے قبل ہو چاہے ايك مجلس ميں ہو يا ايك سے زيادہ مجلس ميں تو يہ ايك طلاق واقع ہو گى، اور وہ جمہور فقھاء كے ہاں خاوند سے بائن صغرى ہو جائيگى اس ليے نئے نكاح كے ساتھ اپنے خاوند كے ليے حلال ہو گى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس عورت كا دخول نہ ہوا ہو اسے ايك ہى طلاق دى جائيگى، چاہے واقع ہونے كى نيت كى ہو يا كسى اور كى اور چاہے يہ عليحدہ ہو يا متصل، ابو بكر بن عبد الرحمن بن حارث، عكرمہ، نخعى، حماد بن سلمہ، حكم، ثورى، شافعى اور اصحاب الرائے اور ابو عبيد اور ابن المنذر كا يہى قول ہے اسے حكم نے على اور زيد بن ثابت اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے بيان كيا ہے"
اس ميں علت يہ ہے جيسا ابن قدامہ كا كہنا ہے: " جس كا دخول نہ ہوا ہو وہ عورت ايك طلاق سے ہى بائن ہو جاتى ہے اس پر كوئى عدت نہيں، اس ليے دوسرى طلاق بائن كو ہوگى لہذا اسے يہ دوسرى طلاق ہونا ممكن نہيں؛ كيونكہ وہ بيوى نہيں بلكہ طلاق تو بيوى كو دى جاتى ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 367 ).
اس سے ايك ہى كلمہ ميں تين طلاق كو جمع كرنے اور اسے عليحدہ عليحدہ كلمہ ميں بولنے كا فرق واضح ہوا، اگرچہ راجح يہى ہے كہ سب حالات ميں تين طلاقيں نہيں بلكہ ايك ہى واقع ہو گى.
واللہ اعلم .