اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

شارع كو مشقت مقصود نہيں

113215

تاریخ اشاعت : 24-01-2009

مشاہدات : 5801

سوال

كراہت كى حالت ميں بھى مكمل وضوء كرنے كا معنى كيا ہے ؟
كيا اس سے مقصود يہ ہے كہ سرديوں ميں گرم پانى استعمال كرنا ممكن ہونے كے باوجود ٹھنڈا پانى استعمال كيا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

وضوء ميں مشقت برداشت كرنے كى فضيلت درج ذيل حديث ميں وارد ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا ميں تمہيں ايسا عمل نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالى گناہ مٹا ديتا ہے، اور اس كے ساتھ درجات بلند كرتا ہے ؟

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيوں نہيں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كراہت اور ناپسنديدگى كى حالت ميں بھى مكمل وضوء كرنا، اور مساجد كى طرف زيادہ قدم اٹھانا، اور نماز كے بعد دوسرى نماز كا انتظار كرنا، يہ رباط ہے، يہى رباط ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 251 ).

اس كى شرح كرتے ہوئے امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اسباغ الوضوء " وضوء مكمل كرنا.

" المكارہ " يہ شديد سردى كى حالت، اور جسم ميں تكليف وغيرہ ميں ہوگا " انتہى

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 141 ).

اور ابن سعد نے " طبقات الكبرى " ميں اپنى سند كے ساتھ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ انہوں نے اپنى موت كے وقت بيٹے كو نصيحت كرتے ہوئے فرمايا:

" ميرے بيٹے تجھے ايمان كى خصلتيں لازم كرنى چاہيں بيٹے نے كہا: وہ كيا ہيں ؟

عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:

گرمى كے دنوں ميں شديد گرمى ميں روزہ ركھنا، اور تلوار كے ساتھ دشمنوں كو قتل كرنا، اور مصيبت پر صبر كرنا، اور شديد سردى كے دن مكمل وضوء كرنا، اور ابرآلود والے دن نماز ميں جلدى كرنا، اور ردغۃ الخبال كو ترك كرنا.

بيٹے نے عرض كيا: ردغۃ الخبال كيا ہے ؟

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:

شراب نوشى كرنا "

ديكھيں: الطبقات الكبرى ( 3 / 359 ).

اہل علم بيان كرتے ہيں كہ اس كا معنى مشقت كا قصد نہيں كہ آپ مقصد تلاش كريں، كيونكہ مشقت مقاصد شريعت ميں شامل نہيں، اور نہ ہى شارع كى يہ مراد ہے، ليكن جب عبادت مشقت كے بغير ميسر نہ ہو تو اس حالت ميں اجروثواب اور بڑھ جاتا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اسباغ الوضوء على المكارہ "

يعنى ناپسند كرتے ہوئے بھى انسان وضوء كرے، يا تو اس وجہ سے كہ اسے بخار ہو اور وہ پانى استعمال كرنے سے بھاگے، ليكن پھر بھى وضوء كر لے، يا پھر ٹھنڈ ہو اور اس كے پاس پانى گرم كرنے كا انتظام نہ ہو، تو وہ ناپسند كرتا ہوا وضوء كرے، يا پھر موسم ابرآلود ہو اور بارش ہو رہى جس كى بنا پر وہ پانى والى جگہ نہ پہنچ سكتا ہو تو اس كے باوجود وضوء كرے، بہر حال وہ مشقت اور ناپسنديدگى كى حالت ميں وضوء كرے ليكن اس ميں كوئى ضرر نہ ہو، اور اگر ضرر و نقصان ہو تو پھر وہ وضوء نہيں بلكہ تيمم كريگا، اس سے اللہ تعالى گناہ مٹاتا ہے اور درجات بلند كرتا ہے.

ليكن اس كا يہ معنى نہيں كہ انسان اپنے اوپر مشقت كرے اور گرم پانى چھوڑ كر ٹھنڈے پانى سے وضوء كرے، يا پھر اس كے پاس پانى گرم كرنے كا انتظام تو ہو ليكن وہ كہے: ميں گرم نہيں كرتا، اور ٹھنڈے پانى سے وضوء كرنا چاہتا ہوں تا كہ مجھے يہ اجر ملے، تو يہ مشروع نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تمہيں سزا دے كر كيا كريگا ؟ اگر تم شكر گزارى كرتے رہو، اور ايمان لاؤ النساء ( 147 ).

حديث ميں آيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو دھوپ ميں كھڑے ديكھا تو فرمايا: يہ كيا ؟

لوگوں نے عرض كيا: اس شخص نے دھوپ ميں كھڑے ہونے كى نذر مان ركھى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس سے منع كر ديا، اور اسے سايہ اختيار كرنے كا حكم ديا "

چنانچہ انسان نہ تو اس كا مامور ہے اور نہ ہى مندوب كے وہ مشقت اور نقصان والا كام كرے، بلكہ اس كے ليے جتنى بھى عبادت آسان ہو وہ افضل ہے، ليكن جب اذيت اور كراہت ضرورى ہو تو اس پر اسے اجروثواب حاصل ہو گا؛ كيونكہ يہ اس كے اختيار كے بغير ہے ...

اور كثرۃ الخطا: كا معنى يہ ہے كہ انسان نماز كے ليے مسجد آئے چاہے دور ہى سے، اس كا يہ معنى نہيں كہ وہ دور والا راستہ اختيار كرے، يا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے، يہ مشروع نہيں، بلكہ وہ اپنى عادت كے مطابق چلے، اور دورى كا قصد نہ كرے، يعنى مثال كے طور پر اگر اس كے گھر اور مسجد كے درميان ايك قريب والا راستہ ہو اور ايك دور والا تو وہ قريب كا راستہ نہ چھوڑے، ليكن اگر مسجد دور ہو اور مسجد كى طرف جانا ضرورى ہے تو يہاں مسجد كى طرف زيادہ قدم اٹھا كر جانا گناہوں كو مٹانے كا باعث ہو گا، اور اس سے درجات ميں بلندى ہو گى " انتہى

ديكھيں: شرح رياض الصالحين كتاب الفضائل باب فضل الوضوء ( 3 / 137 ) طبع مكتبۃ الصفا المصريۃ.

دوم:

ويب سائٹ ميں سوال نمبر ( 113385 ) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ عبادت ميں مشقت كا قصد كرنا مشروع نہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بعض لوگوں كا يہ قول: ( ثواب مشقت كے حساب سے ہوتا ہے ) يہ مطلقا صحيح نہيں، جيسا كہ كچھ رہبانيت كى اقسام والے گروہ اس سے استدلال كرتے ہيں، اور بدعتى لوگ ان عبادات ميں جو اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كيں جو اللہ تعالى نے حلال كيا تھا انہيں مشركوں نے حرام كر ليا اس قبيل سے ہى ہيں.

مثلا: حد سے زيادہ بڑھنے والے جن كى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مذمت كرتے ہوئے فرمايا:

" حد سے تجاوز اور غلو كرنے والے ہلاك ہو گئے "

اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر ميرے ليے مہينہ طويل اور لمبا كر ديا جائے تو ميں ايسا وصال كرتا ( يعنى مسلسل روزے ركھتا ) جس سے تعمق كرنے والے اپنا تعمق چھوڑ ديتے يعنى معاملہ كى گہرائى ميں جانا چھوڑ ديتے "

مثلا: حد سے زيادہ بھوك يا پياس جو عقل اور جسم كو نقصان دے، اور واجبات يا مستحبات جو اس سے زيادہ فائدہ مند ہوں كى ادائيگى ميں مانع ثابت ہو.

اور اسى طرح ننگے پاؤں رہنا، اور جسم پر كپڑے نہ ركھنا، اور پيدل چلنا جس كا كوئى فائدہ نہ ہو اور انسان كو ضرر دے مثلا وہ ابى اسرائيل كى وہ حديث جس ميں ہے كہ اس نے روزہ ركھنے، اور كھڑا رہنے كى نذر مان ركھى تھى كہ وہ بيٹھےگا نہيں اور سايہ اختيار نہيں كريگا اور نہ ہى كلام كريگا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اسے حكم دو كہ وہ بيٹھے، اور سايہ اختيار كرے، اور بات چيت كرے، اور اپنا روزہ پورا كر لے "

اسے بخارى نے روايت كيا ہے.

اور رہا مسئلہ اجروثواب اطاعت كے حساب سے ہے تو بعض اوقات اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كسى آسان عمل ميں ہو گى، جيسا كہ اللہ تعالى نے اہل اسلام پر دو كلموں كى آسانى كى ہے اور يہ دو كلمے افضل اعمال ميں سے ہيں اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:

" دو كلمے ايسے ہيں جو زبان پر بہت ہى ہلكے ہيں، اور ميزان ميں بہت بھارى ہيں، رحمن كو بہت پيارے ہيں، سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظيم ہيں "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور اگر كہا جائے كہ:

عمل كى منفعت اور اس كے فائدہ كے مطابق اجر ہے تو پہلے كو امر كے ساتھ تعلق كى بنا پر اور دوسرے كو فى نفسہ صفت سے متعلق ہونے كى بنا پر صحيح ہے.

اور عمل كا فائدہ اور اس كى منفعت بعض اوقات صرف امر كے اعتبار سے ہوتا ہے، اور بعض اوقات فى نفسہ صفت كے اعتبار سے، اور بعض اوقات دونوں كے اعتبار سے.

چنانچہ پہلے اعتبار سے وہ اطاعت اور معصيت ميں تقسيم ہوتا ہے، اور دوسرا حسن اور برے ميں تقسيم ہو گا.... رہا اس كا مشقت والا ہونا تو يہ عمل كے افضل اور راجح ہونے كا سبب نہيں.

ليكن بعض اوقات فاضل عمل مشقت والا ہو سكتا ہے، تو اس كا افضل ہونا غير مشقت معنى كى بنا پر ہے، اور مشقت كے ساتھ اس پر صبر كرنا اس كے اجروثواب ميں اضافہ كا باعث ہے تو مشقت كے ساتھ ثواب زيادہ ہو گا.

جس طرح حج اور عمرہ ميں دور گھر والے كو قريب گھر والے سے زيادہ اجروثواب حاصل ہوگا، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو عمرہ ميں فرمايا تھا:

" تيرا اجر تيرى تھكاوٹ كے مطابق ہو گا "

كيونكہ عمل ميں مسافت كى دورى كے مطابق اجر ہے، اور دور والا شخص زيادہ تھكتا ہے تو اسے اجر بھى زيادہ ملےگا، اور اسى طرح جہاد ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا:

" قرآن مجيد كا ماہر كرام البررہ فرشتوں كے ساتھ ہو گا، اور جو اسے پڑھنے ميں مشكل سے دوچار ہے وہ اس پر گراں گزرتا ہے تو اسے ڈبل اجر ہے "

اكثر اوقات مشقت اور تھكان كے حساب سے ثواب زيادہ ہو جاتا ہے، اس ليے نہيں كہ عمل سے مشقت مقصود ہے، ليكن اس ليے كہ عمل كے ساتھ مشقت اور تھكان لازم تھى، يہ ہمارى شريعت ميں ہے جس ميں ہم سے بوجھ اور طوق دور كر ديے گئے ہيں، اور اس ميں ہم پر كوئى حرج نہيں، اور نہ ہى اس ميں ہم سے كوئى مشكل چاہى گئى ہے، اور ہم سے قبل والوں كى شرع ميں ہو سكتا ہے ان سے مشقت مقصود ہو.

اور بہت سارے بندے يہ رائے ركھتے ہيں كہ مشقت و تكليف اور تھكان مطلوب ہے اور يہ اللہ كے قرب كا باعث ہے؛ كيونكہ اس ميں نفس كو لذات اور دنيا كى جانب ميلان سے نفرت ہے، اور دل كا جسم سے تعلق ميں انقطاع ہے، اور يہ بالكل اسى زہد اور رہبانيت سے ہے جو بےدين اور ہندو لوگوں وغيرہ كے ہاں پائى جاتى ہے.

اس ليے آپ انہيں اور ان جيسے دوسرے مشابہ راہب قسم كے لوگوں كو شديد قسم كے مشقت اور تھكان والے اعمال و عبادات كرتے ہوئے ديكھينگے، حالانكہ اس ميں كوئى فائدہ نہيں اور نہ ہى اس كا كوئى بہتر انجام ہے، اور نہ فائدہ مگر قليل سا جو اس عذاب كا مقابلہ نہيں كر سكتا جنہيں وہ پائينگے.

اس اصل فاسد كى نظير يہ بھى ہے كہ بعض جاہل قسم كے لوگ مدح سرائى كرتے ہوئے يہ كہتے ہيں:

" فلاں شخص نے شادى نہيں كى، اور فلاں نے ذبح نہيں كيا، يہ ان راہبوں كى مدح ہے جو نہ تو شادى كرتے ہيں اور نہ ہى ذبح، ليكن مخلص اور حنفاء لوگ تو وہ ہيں جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ليكن ميں روزہ بھى ركھتا ہوں، اور نہيں بھى ركھتا، اور ميں نے عورتوں سے شادى بھى كر ركھى ہے، اس ليے جو كوئى بھى ميرى سنت اور ميرے طريقہ سے دور ہٹےگا اور بےرغبتى كريگا وہ مجھ ميں سے نہيں "

يہ اشياء ہى فاسد دين ميں سے ہيں، اور يہ قابل مذمت ہے جس طرح كہ دنيا كى زندگى پر مطمئن ہو جانا قابل مذمت ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 620 - 623 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب