اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بغير كسى اعتقاد كے منگنى كى انگوٹھى پہننے كا حكم

113758

تاریخ اشاعت : 29-09-2010

مشاہدات : 7525

سوال

ان شاء اللہ عنقريب ميرى منگنى ہونے والى ہے، مجھے علم ہے كہ منگنى يا شادى ميں انگوٹھى پہننا اور پہنانا مسلمانوں كى عادات اور رسم و رواج ميں نہيں، اگر دولہن اور اس كى والدہ كى رغبت ہو كہ وہ انگوٹھى پہنائيں تو يہ كيسا ہے ؟
ميں نے سوال نمبر ( 11446 ) كے جواب ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا فتوى پڑھا ہے جس ميں وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" منگنى كى انگوٹھى كى رسم ميں انگوٹھى پہنانا دبلہ كہلاتا ہے، اصل ميں انگوٹھى ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس انگوٹھى كے ساتھ جو اعتقاد ركھا جاتا ہے وہ صحيح نہيں، بعض لوگ اپنا نام منگنى كى انگوٹھى پر لكھواتے ہيں جو منگيتر كو دي جاتى ہے، اور اسى طرح لڑكى بھى اپنا نام لكھواتى ہے جو اپنے منگيتر كو ديتى ہے، اس ميں ان كا خيال يہ ہوتا ہے كہ يہ چيز خاوند اور بيوى ميں تعلق گہرا كرتى ہے.
اس حالت ميں يہ رسم اور انگوٹھى حرام ہوگى، ميں يہ اعتقاد نہيں ركھتا، اور نہ ہى دولہن يہ اعتقاد ركھتى ہے كہ يہ انگوٹھى كسى ارتباط كا باعث بنتى ہے، كيا اگر ميں اپنى منگيتر اور اپنے ليے منگنى كى انگوٹھى خريدوں تو اس ميں كوئى حرج تو نہيں، ميرى انگوٹھى چاندى كى ہوگى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

منگنى كے وقت ايك دوسرے كو انگوٹھى پہنانا كوئى پرانى رسم اور عادت نہيں، بلكہ يہ نصرانى رسم ہے، افسوس كے ساتھ يہ مسلمانوں ميں بھى عام ہونے لگى ہے، اور غالبا اس كے ساتھ غلط قسم كے اعتقادات بھى پائے جاتے ہيں، مثلا يہ اعتقاد ركھا جاتا ہے كہ يہ محبت پيدا كرتى ہے، اور خاوند و بيوى كے مابين ارتباط اور تعلق قائم كرتى ہے، اور اس كا اتارنا يا اس كى جگہ تبديل كرنا نحوست سمجھا جاتا ہے.

شيخ عطيہ صقر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" منگنى يا شادى كى انگوٹھى كا ايك قصہ ہے جو كئى ہزار سال پہلے كى طرف لوٹتا ہے، كہا جاتا ہے كہ: سب سے پہلے اس رسم كى ايجاد فرعونوں نے كى تھى، پھر يہ اغريق كے دور ميں ظاہر ہوئى، اور ايك قول يہ ہے كہ يہ اصل ميں قديم اور پرانى رسم سے ماخوذ ہے كہ:

منگنى كے وقت لڑكى كا ہاتھ لڑكے كے ہاتھ ميں ديا جاتا اور لڑكى كے والد كے گھر سے نكلتے وقت دونوں كے ہاتھوں ميں لوہے كى زنجير ڈالى جاتى پھر لڑكا اپنے گھوڑے پر سوار ہو جاتا اور لڑكى اس كے پيچھے پيدل چل كر خاوند كے گھر پہنچتى دونوں گھروں ميں مسافت زيادہ بھى ہو سكتى ہے، پھر انگوٹھى كى عادت بطور رسم و تقليد پورى دنيا ميں بن گئى.

اسے بائيں ہاتھ كى چھوٹى انگلى كے ساتھ والى انگلى ميں پہننے كى عادت اغريقوں سے لى گئى ہے، ان كا اعتقاد تھا كہ دل كى رگ اس انگلى سے گزرتى ہے، اور اس كى شديد حرص ركھنے والوں ميں انگريز شامل ہيں

ايك قول يہ بھى ہے كہ: منگنى كى انگوٹھى كى رسم نصرانى رسم ہے، اور مسلمانوں نے اس عادت ميں ان كى تقليد كرنا شروع كر دى ہے، اس كے سبب سے صرف نظر كرتے ہوئے دونوں ہى پہننے كى حرص ركھتے ہيں، اور اسے اتارنا اور نہ پہننا منحوس سمجھتے ہيں، دين اس كى كوئى صحيح نہيں سمجھتا " انتہى

اگر تو اس ميں كوئى اعتقاد نہ ركھا جائے، اور نہ ہى اسے اتارنا نحوست كى علامت سمجھا جائے تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ كراہت كے ساتھ اسے پہننا جائز ہے.

اس وقت مسلمانوں ميں پہننے كى عادت بن جانے نے اسے كافروں كے ساتھ حرام مشابہت سے خارج كر ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دبلۃ: يہ ايك انگوٹھى ہے جو مرد اپنى بيوى كو بطور ہديہ اور تحفہ ديتا ہے، بعض لوگ يہ انگوٹھى شادى كرتے وقت يا شادى كا ارادہ كرتے وقت بيوى كو پہناتے ہيں، يہ عادت پہلے تو ہمارے ہاں معروف نہ تھى، شيخ البانى رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ يہ نصارى سے ماخوذ ہے، اور يہ كہ خاوند اور بيوى كنيسہ ميں پادرى كے پاس جاتے ہيں تو عورت اپنى چھوٹى اور اس كے ساتھ والى اور درميانى انگلى ميں انگوٹھى پہنتى ہے، مجھےاس كى كيفيت كا تو علم نہيں.

ليكن وہ كہتے ہيں كہ: يہ نصارى سے لى گئى ہے، اس ليے اسے بلاشك و شبہ ترك كرنا اولى و بہتر ہے، تا كہ ہم دوسروں كے ساتھ مشابہت اختيار نہ كريں.

اس پر مستزاد يہ كہ: بعض لوگ اس ميں اعتقاد ركھتے ہيں اور جو انگوٹھى دينا چاہيں اس پر اپنا نام لكھواتے ہيں، اور وہ لڑكى بھى اپنے خاوند كو دى جانے والى انگوٹھى پر اپنا نام لكھواتى ہے، ان كااعتقاد ہوتا ہے كہ جب تك بيوى كے نام والى يہ انگوٹھى خاوند كے ہاتھ ميں رہےگى، اور بيوى كے ہاتھ ميں خاوند كے نام والى انگوٹھى رہےگى تو ان ميں عليحدگى نہيں ہوگى.

يہ عقيدہ ركھنا ايك قسم كا شرك ہے، اور يہ اس تعويذ وغيرہ ميں شامل ہوتا ہے جو مشركين كرتے تھے كہ اس سے خاوند اپنى بيوى كے ساتھ محبت كرنے لگتا ہے، اور بيوى اپنے خاوند كے ساتھ محبت كرنے لگتى ہے.

اس عقيدہ كے ساتھ يہ انگوٹھى پہننا حرام ہوگى، تو اس طرح يہ انگوٹھى اب دو قسم كى اشياء ضمن ميں ليے ہوئے ہے ايك تو يہ نصارى كى عادت سے ماخوذ ہے، اور دوسرا يہ كہ اس ميں خاوند اور بيوى آپس ميں ارتباط كا عقيدہ ركھتے ہيں، تو اس طرح يہ شرك كى ايك قسم بن جائيگى.. اس ليے ہم اسے ترك كرنا ہى بہتر سمجھتے ہيں " انتہى

ماخوذ از: اللقاء الشھرى ( 46 / 1 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھى قول ہے:

" ميرے رائے تو يہى ہے كہ منگنى كى انگوٹھى پہننا كم از كم مكروہ ہے؛ كيونكہ يہ غير مسلموں كى عادت سے ماخوذ ہے بہر حال مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اپنے آپ كو ہر حالت ميں اس طرح كى تقليد سے اپنے آپ كو دور ہى ركھے، اور اگر اس ميں اعتقاد بھى ركھا جائے جيسا كہ بعض لوگ منگنى كى انگوٹھى ميں اعتقاد ركھتے ہيں كہ يہ خاوند اور بيوى كے مابين تعلقات مضبوط كرنے كا باعث بنتى ہے تو پھر يہ اور بھى شديد اور عظيم گناہ كا باعث ہوگى.

كيونكہ يہ انگوٹھى نہ تو خاوند اور بيوى كے تعلقات پر كوئى اثراندازى ہوتى ہے اور نہ ہى محبت پيدا كرتى ہے، ہم ديكھتے ہيں كہ كئى ايك افراد نے منگنى كى يہ انگوٹھى پہن ركھى ہوتى ہے، ليكن خاوند اور بيوى ميں ايسا اختلاف اور مخالفت پائى جاتى ہے جو انگوٹھى نہ پہننے والوں ميں نہيں ہوتا، بہت سارے لوگ ايسے بھى ہيں جنہوں نے يہ انگوٹھى نہيں پہنى ليكن وہ اپنى بيويوں كے ساتھ محبت و پيار سے رہ رہے ہيں " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 18 / 112 ).

منگنى كى انگوٹھى كوئى بھى نواجوان اپنے ہاتھوں سے اپنى منگيتر كے ہاتھوں ميں نہيں پہنا سكتا اس كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں كيونكہ وہ تو اس كے ليے ايك اجنبى عورت ہے، نہ تو وہ اسے چھو سكتا ہے اور نہ ہى اس سے مصافحہ كر سكتا ہے، اس ليے ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ منگنى كى انگوٹھى مت پہنے، بلكہ آپ اس كى بجائے عام انگوٹھى پہن سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب