الحمد للہ.
جب آپ طلاق اور قسم كے الفاظ نہ بوليں تو آپ پر كچھ لازم نہيں؛ كيونكہ دل ميں بات كرنا قابل مؤاخذہ نہيں بلكہ معاف ہے، اور طلاق صرف نيت سے واقع نہيں ہوتى، اور اسى طرح صرف نيت سے قسم منعقد نہيں ہوتى، بلكہ زبان سے ادا كرنا ضرورى ہے، يا پھر اس كے كوئى قائم مقام ہو جيسا كہ لكھنا ہے.
امام بخارى اور امام مسلم نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلاشبہ اللہ تعالى نے ميرى امت سے وہ معاف كر ديا ہے جو دل ميں بات كريں جب تك كہ وہ اس پر عمل نہ كر ليں يا زبان سے نہ نكاليں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5269 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 127 ).
ہم سابقہ جواب ميں يہ بيان كر چكے ہيں كہ بعض اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوتى چاہے وہ زبان سے الفاظ بھى ادا كرے جب تك اس كا مقصد طلاق نہ ہو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" وسوسہ ميں مبتلا شخص كى طلاق واقع نہيں ہوتى چاہے وہ زبان سے اس كے الفاظ بھى ادا كر لے جب تك وہ طلاق كا قصد اور ارادہ نہ ركھتا ہو، كيونكہ يہ الفاظ تو وسوسہ والے شخص سے بغير قصد اور ارادہ كے صادر ہوئے ہيں، بلكہ اس كى عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے، اور وہ اس وسوسہ كى قوت دافع اور مانع كى قوت كى قلت كى بنا پر مجبور ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عقل پر پردہ پڑا ہونے كى صورت ميں طلاق نہيں ہوتى "
اس ليے اگر وہ حقيقى طور پر اطمنان كے ساتھ طلاق كا ارادہ نہ كرے تو اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى، تو جس چيز پر ا سكا قصد اور ارادہ ہى نہيں اور وہ مجبور ہے تو اس سے طلاق واقع نہيں ہو گى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 277 ).
حاصل يہ ہوا كہ: آپ پر كچھ لازم نہيں آتا، نہ تو طلاق اور نہ ہى قسم كا كفارہ، بلكہ آپ كو اپنے وسوسہ كے علاج كے ليے اللہ تعالى كا كثرت سے ذكر كرنا چاہيے اور نيك و صالح اعمال بھى كثرت سے كريں، اور وسوسہ سے آپ اعراض كريں اور اس پر توجہ مت ديں.
واللہ اعلم .