جمعہ 8 ربیع الثانی 1446 - 11 اکتوبر 2024
اردو

زنا كى حد ميں صرف چار گواہ

114877

تاریخ اشاعت : 08-01-2009

مشاہدات : 16715

سوال

ميرا سوال يہ ہے كہ: اسلامى شرعى عدالت ميں پيش كردہ مقدمے ميں چار گواہوں سے كيا امور مطلوب ہيں، اور ان سے مقصود كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فقہ اسلامى ميں گواہى ثبوت كے ليے ايك دليل ہوتى ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد ميں كئى ايك مقامات پر كيا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے گواہى كے ساتھ فيصلہ كرنا بھى ثابت ہے، اور كتب فقہ ميں گواہى كے متعلق بہت شرح و تفصيل سے بيان كيا گيا ہے.

يہاں ہم اس بابت ـ جو سوال كے متعلق ہے ـ تين امور كى تنبيہ كرنا پسند كرتے ہيں:

پہلى چيز:

مطلوبہ گواہوں كا نصاب اور تعداد مختلف ہے، اور جس چيز كى گواہى دى جائيگى اس كے اعتبار سے ہى گواہوں كى تعداد ہو، ہر قسم كى گواہى ميں كوئى ايك ہى تعداد محدود نہيں، كچھ ايسے معاملات ہيں جن ميں صرف ايك عادل شخص كى گواہى قبول ہوتى ہے، اور كچھ معاملات كے ليے دو گواہوں كى شرط ہے، اور كچھ ميں چار گواہوں كى شرط ہے.

بلاشك و شبہ يہ چيز شريعت اسلامى كے كمال اور اس كى حكمت بالغہ ميں شامل ہوتا ہے كہ معاملات اور موضوع كى اہميت و خطرہ اور تاثير كے اعتبار سے گواہى كا خيال ركھا گيا ہے، اور ہر معاملہ ميں جو مناسب ہو گواہوں كى تعداد مقرر كى گئى ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" جس موضوع كى گواہى دى جا رہى ہے اس ميں گواہوں كى تعداد موضوع كے حساب سے مختلف ہو گى:

ا ـ كچھ گواہياں تو ايسى ہيں جن ميں چار مردوں كى گواہى سے كم قبول نہيں ہوتى، اور ان ميں عورت شامل نہيں، اور يہ زنا ميں ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو پاكدامن عورتوں پر زنا كى تہمت لگائيں پھر چار گواہ پيش نہ كر سكيں تو انہيں اسى كوڑے لگاؤ، اور كبھى بھى ان كى گواہى قبول نہ كرو، يہ فاسق لوگ ہيں النور ( 4 ).

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم! اگر ميں اپنى بيوى كے ساتھ كسى مرد كو پاؤں تو كيا اسے اتنى مہلت دوں حتى كہ چار گواہ لے كر آؤں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں "

اسے مسلم نے روايت كيا ہے.

ب ـ اور كچھ معاملات ايسے ہيں جن ميں دو مردوں كى گواہى قبول ہوتى ہے اس ميں عورت نہيں، اور يہ زنا كے علاوہ باقى سارے وہ معاملات ہيں جن ميں حدود اور قصاص ہے، مثلا چورى ميں ہاتھ كاٹنا، اور شراب نوشى كى حد، اور حرابہ كى حد، اس ميں علماء كا اتفاق ہے.

اور جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ جن پر غالبا مرد مطلع ہو سكتا ہے، اور وہ نہ تو مال سے ہو اور نہ ہى اس سے مال حاصل كرنا چاہتا ہو، مثلا نكاح، طلاق، رجوع، ايلاء، ظہار، نسب، اسلام، اتداد، جرح، تعديل، موت، وكالت، وصايہ اور گواہى پر گواہى وغيرہ تو فقھاء كے ہاں يہ دو گواہوں كى گواہى سے ثابت ہو جائيگى، اور ان گواہوں ميں عورت شامل نہيں ہو سكتى، اس ميں انہوں نے دليل يہ دى ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے طلاق اور رجوع اور وصيت ميں دو مردوں كى گواہى بالنص بيان كى ہے.

طلاق اور رجوع كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو جب يہ عورتيں اپنى عدت پورى كرنے كے قريب پہنچ جائيں تو انہيں يا تو قاعدہ كے مطابق اپنے نكاح ميں رہنے دو، يا دستود كے مطابق انہيں الگ كر دو، اور آپس ميں سے دو عادل شخصوں كو گواہ بنا لو الطلاق ( 2 ).

اور وصيت كے متعلق فرمان بارى تعالى اس طرح ہے:

اے ايمان والو! تمہارے آپس ميں دو شخص كا گواہ ہونا مناسب ہے، جبكہ تم ميں سے كسى كو موت آنے لگے اور وصيت كرنے كا وقت ہو وہ دو شخص ايسے ہوں كہ ديندار ہوں، خواہ تم ميں سے ہوں يا غير لوگوں ميں سے دوشخص ہو، اگر تم كہيں سفر ميں گئے ہو اور تمہيں موت آ جائے اگر تمہيں شبہ ہو تو ان دونوں كو نماز كے بعد روك لو پھر دونوں اللہ كى قسم كھائيں كہ ہم اس قسم كے عوض كوئى نفع نہيں لينا چاہتے، اگرچہ كوئى قرابت دار بھى ہو اور اللہ تعالى كى بات كو ہم پوشيدہ نہ كرينگے،ہم اس حالت ميں سخت گنہگار ہونگے المآئدۃ ( 106 ).

اور نكاح كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

اسے بيھقى نے روايت كيا ہے.

اور امام مالك نے امام زہرى سے بيان كيا ہے:

" يہ طريقہ اور سنت چل رہى ہے كہ حدود اور نكاح اور طلاق ميں عورت كى گواہى جائز نہيں، اور جس ميں مذكورہ شرط پائى جائے اسے بھى اس پر قياس كرو.

ج ـ احناف كہتے ہيں:

وہ معاملات جس ميں دو مرد گواہ يا پھر ايك مرد اور دو عورتوں كى گواہى قبول ہوتى ہے وہ حدود اور قصاص كے معاملات كے علاوہ باقى معاملات ہيں، چاہے وہ مال ہو يا غير مال، مثلا نكاح، طلاق، آزادى، وكالت، وصيت اس كى دليل اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:

اور اپنے ميں سے دو مرد گواہ ركھ لو، اگر مرد نہ ہوں تو ايك مرد اور دو عورتيں جنہيں تم گواہوں ميں سے پسند كر لو، تا كہ ايك بھول چوك كو دوسرى ياد كرا دے البقرۃ ( 282 ).

اور جمہور نے دو مردوں يا ايك مرد اور دو عورتوں كىگواہى كو صرف مال يا مال كے معنى والے معاملات ميں ہى اقتصار كيا ہے، مثلا بيع، اور حوالہ، ضمان، مالى حقوق، مثلا اختيار، اور مدت وغيرہ.

د ـ اور كچھ ايسے معاملات ہيں جس ميں صرف عورتوں كى ہى گواہى قبول كى جاتى ہے، اور وہ ولادت اور رضاعت، اور پيدائش كے وقت بچے كا چيخنا، اور وہ چھپے عيوب جن پر اجنبى مرد مطلع نہيں ہو سكتا، اس ميں صرف عورت كى گواہى ہى قبول كى جائيگى.

ليكن ان امور كے ثبوت ميں گواہوں كى تعداد ميں اختلاف پايا جاتا ہے، كہ ان امور ميں كتنى عورتوں كى گواہى ہو تو وہ معاملہ پايا ثبوت تك پہنچےگا، اس ميں پانچ قول ہيں.

و ـ اور كچھ ايسے معاملات بھى ہيں جس ميں صرف ايك گواہ كى گواہى قبول كى جاتى ہے، چنانچہ رمضان المبارك كا چاند ديكھنے ميں ايك عادل شخص كى گواہى قبول كى جائيگى، اس كى دليل ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى يہ حديث ہے:

" لوگوں نے چاند ديكھنے كى كوشش كى تو ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بتايا كہ ميں نے چاند ديكھا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے روزہ ركھا اور لوگوں كو بھى اس دن كا روزہ ركھنے كا حكم ديا "

اسے ابو داود نے روايت كيا ہے. انتہى مختصرا

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 26 / 226 - 229 ).

دوسرا معاملہ:

زنا كے ثبوت كے ليے چار گواہوں كى گواہى ميں شرط يہ ہے كہ: ـ مسلمان اور آزاد اور عادل ہونے كے علاوہ ـ انہوں نے اپنى آنكھوں سے ديكھا ہو اور پورى وضاحت اور دقيق وصف كے ساتھ بيان كريں، اس ميں مرد اور اجنبى عورت كا ايك جگہ جمع ہونے كو ديكھ كر بيان كرنا كافى نہيں، چاہے انہيں اس نے بے لباس بھى ديكھا ہو، اور اس گواہى كى خصوصيت ميں يہ شامل ہے.

ابن رشد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور گواہوں سے زنا كا ثبوت:

علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ گواہوں سے زنا ثابت ہوجاتا ہے، اور باقى سارے حقوق كے برخلاف اس ميں چار گواہوں كى شرط ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

پھر وہ چار گواہ پيش نہ كر سكيں .

اور وہ گواہ عادل ہوں، اور اس گواہى كى شرط يہ ہے كہ انہوں نے مرد كى شرمگاہ كو عورت كى شرمگاہ ميں ديكھا ہو، اور پھر يہ صراحت كے ساتھ بيان كيا جائے نہ كہ اشارہ كنايہ كے ساتھ " انتہى.

ديكھيں: بدايۃ المجتھد ( 2 / 439 ).

اور امام الماوردى كہتے ہيں:

" اور زنا ميں گواہى كا طريقہ اور وصف يہ ہے كہ: اس ميں گواہوں كا يہ كہنا كافى نہيں: ہم نے اسے زنا كرتے ديكھا، بلكہ انہيں وہ وصف بيان كرنا ہو گا جس زنا كا انہوں نےمشاہدہ كيا ہے، اور وہ اس طرح كہيں: ہم نے مرد كا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں اس طرح داخل ہوتے ديكھا جس طرح سرمہ ڈالنے كى سلائى سرمہ دانى ميں داخل ہوتى ہے.

ايسا تين امور كى بنا پر كيا جائيگا:

اول:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماعز رضى اللہ تعالى عنہ كے اقرار كو ثابت كرنے كے ليے فرمايا:

كيا تو نے اس طرح دخول كيا جس طرح كہ سرمہ ڈالنے والى سلائى سرمہ دانى ميں داخل ہو جاتى ہے، اور پانى كا ڈول كنوئيں ميں ؟

تو اس نے كہا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے رجم كرنے كا حكم ديا "

تو يہ چيز اقرار ميں بطور ثبوت پوچھى گئى تو پھر گواہى ميں بالاولى يہ طريقہ ہو گا.

دوم:

جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس گواہوں نے مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كے خلاف زنا كى گواہى دى اور وہ گواہ: ابو بكرہ، اور نافع، اور نفيع، اور زياد تھے تو ابو بكرہ اور نافع اور نفيع نے صراحت كے ساتھ بيان كيا، ليكن زياد كو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:

تمہارے پاس جو كچھ ہے وہ بيان كرو، اور مجھے اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى تيرى زبان سے صحابى كى ہتك نہيں كريگا.

تو زيادہ كہنے لگا: ميں نے ايك نفس كو اوپر ہوتے ديكھا، يا دو سرين اوپر ديكھے، اور ميں نے اس عورت كى ٹانگيں اس كى گردن پر ديكھيں گويا كہ وہ دونوں ٹانگيں گدھے كے كان ہوں.

اے امير المومنين ميں نے جانتا كہ اس كے پيچھے كيا تھا.

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے نعرہ تكبير بلند كرتے ہوئے اللہ اكبر كہا، اور گواہى ساقط كر دى اور اسے مكمل نہ سمجھا "

مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كى اس تہمت سے برات كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 120030 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

سوم:

زنا لفظ مشترك ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" آنكھيں زنا كرتى ہيں، اور ان كا زنا ديكھنا ہے، اور ہاتھ بھى زنا كرتے ہيں، اور ان كا زنا پكڑنا اور چھونا ہے، اور اس سب كى تصديق يا تكذيب شرمگاہ كرتى ہے "

اس ليے زنا كے ثبوت كى گواہى ميں اس احتمال كى نفى كے ليے لازم ہے زہ انہوں نے جو كچھ ديكھا ہے وہ بيان كريں، كہ مرد كى شرمگاہ عورت كى شرمگاہ ميں داخل تھى " انتہى.

ديكھيں: الحاوى ( 13 / 227 ).

تيسرا معاملہ:

زنا كے معاملہ ميں اس شدت كے ساتھ گواہى كى تخصيص ميں عزت و ناموس كى حفاظت ميں مزيد احتياط ہے، تا كہ لوگ طعن اور تہمت لگانا آسان نہ سمجھيں.

اور اس باريكى اور دقيق وصف كے ساتھ گواہى كى شرط ہونے كى بنا پر كسى شخص پر زنا كى حد كا جارى ہونا بہت مشكل ہے، الا يہ كہ وہ خود اعتراف كر لے، اور جس شخص پر اتنى دقيق اور باريكى سے گواہى ديے جانے پر حد جارى ہو تو يہ اس جرات اور شنيع فعل كى دليل ہے جس كى سزا ميں وہ عبرت ناك سزا كا مستحق ٹھرتا ہے.

امام مارودى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس معاملے كى گواہى دى جارہى ہے اس كے سخت ہونے اور شديد ہونے كے اعتبار سے گواہى بھى شديد ہو گى، جب زنا اور لواطت و بدكارى سب سے برے اور فحش كام ميں شامل ہوتى ہے جس سے منع كيا گيا ہے تو اس كے آخر ميں گواہى بھى اتنى ہى شديد ركھى گئى، تا كہ حرمت كى بےپردگى نہ ہو، اور اسے ختم كرنے كا باعث بنے " انتہى.

ديكھيں: الحاوى ( 13 / 226 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" زنا پر گواہى كى وجہ سے كوئى حد نہيں لگائى جا سكتى، اور ميرے علم كے مطابق تو گواہى كے ساتھ زنا كى حد لگائى ہى نہيں گئى، بلكہ يہ يا تو اعتراف يا پھر حيلہ كے ساتھ لگائى جاتى ہيں "

ديكھيں: منھاج السنۃ ( 6 / 95 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب