سوموار 29 جمادی ثانیہ 1446 - 30 دسمبر 2024
اردو

کیا جنتی لوگ جہنم میں اپنے عزیز و اقارب کے عذاب پانے کی وجہ سے غمگین ہونگے؟

115480

تاریخ اشاعت : 03-03-2014

مشاہدات : 12574

سوال

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جنتی کبھی بھی کسی چیز پر غمگین نہیں ہونگے، لیکن اگر انکے خاندان یا انکا کوئی محبوب شخص جہنم میں چلا گیا، تو وہ اقرباء کو عذاب دئیے جانے پر کیسے خوش رہ سکتا ہے، کیونکہ اسے اس بات کا علم ضرور ہوگا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے اہل جنت کیلئے مسرت و خوشی، اور سعادت، لازمی کر دی ہے، وہ اللہ کے فضل اور رحمت سے نعمتوں میں مست ہونگے، جنتی لوگوں کیلئے کوئی دکھ ، درد، غم نہیں ہوگا، بلکہ وہ نہایت رحم کرنے والے اور مہربان رب کی جانب سے ہمیشہ کی نعمتوں میں ہونگے، اسی لئے فرمانِ باری تعالی ہے:

( بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ )

ترجمہ: کیوں نہیں جو شخص بھی اپنے آپ کو اللہ کا فرمانبردار بنا دے اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کا اجر اس کے پروردگار کے ہاں اسے ضرور ملے گا اور ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے البقرة/ 112

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

( يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ )

ترجمہ: ان کا پروردگار انہیں اپنی رحمت اور رضا مندی کی خوشخبری دیتا ہے اور ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کی نعمتیں دائمی ہیں التوبة/ 21

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کچھ جنتی لوگوں کے ساتھی ، دوست، اقرباء، اہل خانہ جہنمی ہونگے، تو کیا یہ انکی خوشی میں کمی یا کدورت پیدا کر سکے گا؟

اسکا جواب: کبھی نہیں، ایسا بالکل نہیں ہوسکتا، اور ہمیں اپنے علم کے مطابق کوئی ایسی شرعی نص نہیں ملی جو اس بارے میں صراحت کرتی ہو، لیکن ہمیں اپنی مذکورہ بات پر بہت یقین ہے، اسکی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1- اہل جنت شرعی احکامات کو جانتے ہیں۔

2- وہ حکمتِ الہٰیہ کے سامنے سرِ تسلیم خم رکھتے ہیں۔

3- جنت کی ترو تازہ نعمتیں انہیں عذاب کے مستحق ٹھہرنے والے اشخاص کی تکالیف بھلا دیں گے۔

مذکورہ بالا کی تائید میں دو واقعات ہیں:

پہلا: قیامت کے دن ابراہیم علیہ السلام کا اپنے کافر باپ کے ساتھ ۔

دوسرا: ایک جنتی شخص کا دوست جہنم میں ہوگا جسے وہ جنت میں رہتے ہوئے دیکھ لے گا۔

پہلے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ: ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی کہ قیامت کے دن اسے رسوا نہ کرے، چنانچہ جب آپ علیہ السلام کے والد پر ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہنے کا حکم لگایا جائے گا تو ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی سے اپنی دعا کی قبولیت کیلئے درخواست کرینگے، تو انکے والد کو سامنے لایا جائے گا، پھر اللہ تعالی اسے بجو کی شکل میں تبدیل کردیگا، اور اسکی ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی کے جنت میں کسی بھی کافر کے داخلے پر پابندی کے فیصلے کے بارے میں آگاہ کردیا جائے گا، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے حکمت بھرے اس فیصلے کو قبول کر لیں گے۔

چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتےہیں کہ : (ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آزر سے قیامت کے دن ملیں گے آزر کے چہرے پر سیاہی اور غبار چھایا ہوگا، تو اس سے ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے کہ: میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرنا، ان کا باپ کہے گا: آج میں تمہاری نافرمانی نہ کرونگا، تو ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: کہ اے میرے پروردگار! تو نے مجھ سے حشر کے دن مجھے رسوا نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، پس کون سی رسوائی اپنے کم بخت باپ کی رسوائی سے بڑھ کر ہوگی، تو اللہ فرمائے گا: میں نے کافروں پر جنت حرام کر دی ہے، پھر ابراہیم سے کہا جائے گا: اے ابراہیم! تمہارے پاؤں کے نیچے کیا ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک(ذیخ) نَر بجو کے ساتھ ہونگے جو اپنی ہی لید میں لتھڑا ہوگا ، پھر اس جانور کو ٹانگوں سے پکڑ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا) بخاری ( 3350 )

حدیث میں مذکور"ذیخ" نَر بجو کو کہا جاتا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ: بجو کو " ذیخ "اسی وقت کہا جاتا ہے جب اسکے جسم پر گھنے بال ہوں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کو لتھڑے ہوئے بجو کی شکل اس لئے دی گئی تا کہ ابراہیم علیہ السلام کیلئے اپنے والد کو جہنم میں اصل شکل پر دیکھنے کی وجہ سے غم نہ ہو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہ آپکی دعا کی قبولیت کے طور پر ہے، اس امر کی توجیہات میں اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے۔

بہر حال: یہ واقعہ اس بات کی دلیل بن سکتا ہے کہ اہل جنت اللہ تعالی کے جہنمیوں کے بارے میں ہمیشہ رہنے کے فیصلہ کو تسلیم کر لیں گے۔

حافظ ابن حجر –بجو کی شکل میں آزر کے مسخ کرنے کی حکمت کے بارے میں – کہتے ہیں:

"اس کے مسخ کی حکمت میں کہا گیا ہے کہ: تا کہ ابراہیم اس سے نفرت کرنے لگیں؛ اور جہنم میں وہ اپنی اصل صورت میں باقی نہ رہیں، اور ابراہیم علیہ السلام کیلئے عار کا باعث نہ بنے۔

بجو کی شکل میں ہی مسخ اس لئے کیا کہ بجو بیوقوف ترین جانور ہے، اور آزر بھی انسانوں میں سے احمق ترین انسان تھا؛ کیونکہ اپنے ہی بیٹے کی جانب سے واضح نشانیاں ظاہر ہونے کے با وجود کفر پر مُصر رہا، اور کفر پر ہی موت آئی،اور بجو کی شکل میں اس لئے مسخ کیا گیا: کہ یہ جانور اپنے سے کم تر جیسے کتا، اور سور وغیرہ اور اپنے سے بالا جیسے شیر کے مقابلے میں درمیانی درجے کا ہے؛ اسکی وجہ یہ تھی کہ ابراہیم علیہ السلام نے اسکے سامنے انتہا درجے کی منت کی، اور خوب نرم خوئی سے بات کی، لیکن اسکے باوجود آزر نے تکبر اور انکار کرنے ہوئے کفر پر اصرار کیا، اور قیامت کے دن اسکے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا گیا، چنانچہ بجو میں ٹیڑھ پن اس بات کی غمازی ہے کہ آزر بھی ایمان لا کر سیدھا نہ ہوا بلکہ اپنے کفریہ دین پر قائم رہ کر ٹیڑھ پن کو اختیار کئے رکھا"

" فتح الباری " ( 8 / 500 )

دوسرا واقعہ:

اس واقعہ میں پہلے سے زیادہ واضح شکل ہے، اور سوال سے مطابقت بھی رکھتی ہے، وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے ایک جنتی مؤمن کے بارے میں بتلایا ہے کہ اللہ تعالی اسے جہنم میں اپنے ایک دوست کو دیکھنے کا موقع دیگا، تو اسے کوئی غم نہیں ہوگا، اور نہ ہی کدورت حاصل ہوگی، بلکہ ہدایت کی عنائت پر اللہ تعالی کے فضل کاشکر ادا کرتا ہے، کہ اس نے مجھے کفر اور جہنم سے بچایا، اور پھر وہ حاصل ہونے والی نعمتوں اور سہولتوں کو یاد کرتا ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

( فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ . قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ . يَقُولُ أَئِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَ . أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَئِنَّا لَمَدِينُونَ . قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ . فَاطَّلَعَ فَرَآَهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ . قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ . وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ . قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ . فَاطَّلَعَ فَرَآَهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ . قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ . وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ . أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ . إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ . إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ . لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ )

ترجمہ: یہ لوگ بھی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے[50]ان میں سے ایک کہے گا: (دنیا میں) میرا ایک ہم نشین تھا[51] جو مجھے کہا کرتا تھا:'' کیا توں بھی تصدیق کرنے والوں میں شامل ہوگیا؟ [52] بھلا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا ہمیں سزا و جزا بھگتنا پڑے گی؟'' [53] پھر کہے گا: ''کیا تم اس کا حال معلوم کرنا چاہتے ہو؟'' [54] پھر جب وہ جھانکے گا تو اسے جہنم کے عین درمیان دیکھے گا [55] اور کہے گا: اللہ کی قسم! تم مجھے ہلاک کرکے ہی چھوڑتے [56] اور اگر مجھ پر میرے اللہ کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی (مجرموں کی طرح) حاضر کئے ہوئے لوگوں میں شامل ہوتا [57] (پھر وہ خوشی سے اپنے دل میں کہے گا) کیا اب تو ہمیں موت نہیں آئے گی؟ [58] ہمیں پہلی بار ہی مرنا تھا (جو مرچکے) اور اب ہمیں عذاب بھی نہیں ہوگا [59] یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہے [60] ایسی ہی کامیابی کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں الصافات/ 50 – 61

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"پھر مؤمن اپنے جنتی بھائیوں کو کہے گا: کیا تم جہنم میں میرے دوست کی جگہ اور اسکے انجام کو دیکھنا چاہتے ہو"، یہ قوی قول ہے، اسکے علاوہ اس کے بارے میں دو اقوال اور بھی ہیں: ایک یہ کہ: "آپس میں ماضی کو یاد کرنے والوں سے فرشتے کہیں گے: کیا تم دیکھنا چاہتے ہو"،اسے عطاء نے ابن عباس سے روایت کیا ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ: یہ بات اللہ تعالی اہل جنت کو کہیں گے، اور اللہ تعالی فرمائے گا: کیا تم دیکھنا چاہتے ہو؟ جبکہ صحیح یہ ہے کہ پہلا قول صحیح ہے، کہ یہ بات ایک مؤمن محوِ گفتگو ساتھیوں سے کہے گا، جو کہ سیاقِ کلام، اخبار اور دوست کے حالات کے بارے میں ہے"

" حادی الأرواح " ( ص 179 )

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

( قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ ) مؤمن کافر کو مخاطب کرتے ہوئے کہے گا: اللہ کی قسم! عین قریب تھا کہ اگر میں تیری اطاعت کرتا تو توں مجھے ہلاکت میں ڈال دیتا ۔

( وَلَوْلا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ ) یعنی: اگر اللہ کا مجھ پر فضل نہ ہوتا تو میں بھی تیری طرح بری جہنم میں ہوتا جہاں تم ہو، عذاب میں تیرے ساتھ ہوتا، لیکن اللہ تعالی نے مجھ پر رحم اورفضل کرتے ہوئے، ایمان کیلئے ہدایت دی، اور توحید کیلئے راستہ بتایا، (اگر اللہ تعالی ہمیں ہدایت نہ دینا تو ہم کبھی بھی ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتے تھے) الأعراف/ 43

فرمانِ باری تعالی : ( أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ . إِلا مَوْتَتَنَا الأولَى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ )یہ بات مؤمن کی ہے جو اپنے آپ میں پھولا نہیں سما رہا، کہ اللہ تعالی نے اسے جنت میں دائمی داخلہ دے دیا ہے، جو کہ عزت والا گھر ہے، جہاں موت نہیں آئےگی، اور نہ ہی عذاب ہوگا، اسی لئے تو فرمایا: ( إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )

" تفسير ابن كثير " ( 7 / 16 )

یہی موقف اس مسئلہ کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مؤمن کفار کے بارے میں اللہ تعالی کے فیصلے کو جانتا ہے، اور اللہ تعالی کی کمال حکمت کی وجہ سے اسے تسلیم بھی کرتا ہے، اللہ تعالی کے فضل اور رحمت کے باعث جن نعمتوں میں وہ خود ہے اُسے جہنم میں اہل خانہ، دوست احباب دوسروں کے بارے میں سوچ و بچارہی نہیں رہے گی۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب