الحمد للہ.
كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنے مسلمان بھائى كى منگنى كو موجودگى ميں اسى عورت سے منگنى كرے اور اسے شادى كا پيغام دے، ليكن اگر وہ مسلمان اسے چھوڑ دے يا پھر اسے منگنى كى اجازت دے تو پھر جائز ہے كيونكہ حديث ميں اس كى ممانعت آئى ہے.
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك دوسرے كى بيع پر بيع كرنے سے منع فرمايا، اور نہ ہى كوئى شخص كسى دوسرے شخص كى منگنى پر منگنى كرے، حتى كہ وہ پہلا منگيتر اسے چھوڑ دے يا وہ اسے اجازت دے دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5142 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1412 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ احاديث اپنے بھائى كى منگنى پر منگنى كرنے كى حرمت پر واضح دليل ہيں، اور علماء كرام كا اس كى حرمت پر اجماع ہے، كہ جب رشتہ طلب كرنے والے كے ليے صريحا ہاں كر دى گئى ہو اور اس كا رشتہ قبول كر ليا گيا ہو، اور نہ تو وہ اسے اجازت دے اور نہ ہى اسے چھوڑے تو رشتہ طلب كرنا حرام ہے " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 9 / 197 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص كى منگنى پر دوسرے شخص نے رشتے كا پيغام دے ديا تو كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
" الحمد للہ:
صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:
" كسى بھى شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے بھائى كى منگنى پر منگنى كرے "
اس ليے آئمہ اربعہ وغيرہ اس كى حرمت پر متفق ہيں.
صرف ان كا دوسرے شخص كے نكاح كے صحيح ہونے ميں تنازع پايا جاتا ہے، اس ميں دو قول ہيں:
پہلا قول:
يہ نكاح باطل ہے، مثلا امام مالك كا قول، اور امام احمد كى ايك روايت ہے.
دوسرا قول:
يہ نكاح صحيح ہے، يہ قول ابو حنيفہ اور امام شافعى كا ہے اور امام احمد كى دوسرى روايت ہے، اس بنا پر كہ حرام تو نكاح سے پہلے منگنى تھى، اور جنہوں نے اسے باطل قرار ديا ہے وہ كہتے ہيں كہ يہ چيز عقد نكاح كو بالاولى باطل كرتى ہے.
اس ميں علماء كا كوئى نزاع نہيں كہ ايسا كرنے والا اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول كا نافرمان ہے، اور معصيت و گناہ پر علم ہونے كے ساتھ اصرار كرنا انسان كے دين اور اس كے عادل ہونے اور مسلمانوں پر ولايت كے معاملہ ميں جرح كا باعث بنتا ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 7 ).
اس ليے آپ كے بھائى كو اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے اور وہ صبر كرے، اور اگر وہ منگيتر ميں كوئى ايسا عيب اور خلل ديكھتا ہے جسے بطور نصيحت و خيرخواہى بيان كرنا ضرورى ہو تو سچى خيرخواہى كے ساتھ بيان كرے، ليكن وہ اس ميں اس لڑكى سے شادى كى رغبت كا اظہار مت كرے.
رہا يہ مسئلہ كہ اس نے رغبت ظاہر كى ہے كہ اگر وہ اپنے پہلے منگيتر كو چھوڑ دے تو وہ اس سے شادى كر سكتا ہے، تو يہ بعينہ منگنى پر منگنى ہے، اور يہ حرام ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
اور پھر عورت كے ولى كے ليے بغير كسى شرعى سبب كے منگنى كو ختم كرنا حرام ہے.
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كے والد كے ليے حلال نہيں كہ وہ پہلے ايك شخص كا اپنى بيٹى كے ليے رشتہ قبول كر لينے كے بعد دوسرے شخص كا رشتہ قبول كرے، ليكن اگر اس كا كوئى شرعى موجب ہو تو پھر ہو سكتا ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 10 / 43 ).
اگر آپ كا بھائى اس سے مبحت كرتا اور اس ميں رغبت ركھتا ہے، جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے، تو پھر اس نے پہلے رشتہ كيوں نہ مانگا، اس كے رشتہ طلب كرنے سے پہلے كسى اور نے رشتہ طلب كر ليا ہے.
اب اسے چاہيے كہ وہ توبہ و استغفار كرے، اور اپنے چچا كو بتائے كہ اس نے رشتہ طلب كرنے كى جو رغبت ظاہر كى ہے اس پر نادم ہے، اور اسے نصيحت كرے كہ وہ پہلے رشتہ كے ساتھ وفا كرتے ہوئے اس سے وعدہ پورا كرے اور اس كى رغبت كو مت ديكھے، ليكن اگر كوئى ايسا سبب ہو جس كى بنا پر منگنى توڑنا مباح ہے تو پھر كوئى مسئلہ نہيں.
رہا دعا مانگنے كے بارہ ميں تو آپ كے بھائى كو نيك و صالح بيوى حاصل ہونے كى دعا كرنى چاہيے، نہ كہ كوئى معين عورت حاصل ہونے كى، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كى دعا قبول ہو جائے ليكن اس سے اس كى شادى ميں بہترى نہ ہو.
اس ليے وہ اللہ سبحانہ و تعالى سے خير و بھلائى كى دعا كرے كہ جہاں بھى خير و بھلائى ہے اسے نصيب فرمائے، چاہے وہ اس عورت ميں ہو يا كسى دوسرى ميں.
اللہ سبحانہ و تعالى سب كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق دے جن سے اللہ راضى ہوتا ہے اور جنہيں پسند فرماتا ہے.
واللہ اعلم .