الحمد للہ.
جس گائے کو ذبح کرنے سے قبل
قتل کیا جائے تو وہ مردار ہے، اسے کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ
فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا
حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ
لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ
غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی نے تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، اور جو غیر اللہ کیلئے
مشہور کیا گیا ، سب حرام کر دیا ہے، تاہم جو شخص لاچار ہو جائے لیکن وہ (اللہ کے
قانون کا) باغی نہ ہو اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو (تو وہ اسے معاف ہے)
کیونکہ آپ کا پروردگار بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے [النحل : 115]
اور آپ نے بتلایا ہے کہ کچھ مسلمان ایسے جانور کا گوشت کھاتے ہیں جنہیں مرنے کے بعد ذبح کیا جاتا ہے، تو اس کے بارے میں ایسا امکان موجود ہے کہ وہ صرف وہی گوشت کھاتے ہوں جو صرف شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، اور یہ بھی امکان موجود ہے کہ انہیں اس قسم کے گوشت کے بارے میں حکم کا علم ہی نہ ہو، یا انہیں اس گوشت کے بارے میں یہی بتلایا گیا ہو کہ یہ حلال ہے۔
بہر حال آپ یہ گوشت مت کھائیں، اور اگر آپ کو کوئی ایسا گوشت کھانے پر مجبور کرے تو اس کی بات مت مانیں، اور انہیں نہ کھانے کی وجہ بھی بتلا دیں؛ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی اس گوشت کو نہ کھائے، یا کم از کم آپ کے نا کھانے کی وجہ جان کر آپ کا عذر قبول کر لے۔
اور آپ نے کچھ لوگوں کی بات ذکر کی ہے کہ : کینیڈا کے لوگ اہل کتاب ہیں، اس لیے ان
کا ذبیحہ کھانا جائز ہے!! تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
اہل کتاب کا ذبیحہ کھانا جائز ہے، لیکن سوال میں مذکور جانور ذبح شدہ نہیں ہیں
بلکہ مردار ہوچکے ہوتے ہیں، اور مردار کھانا بالکل ہی جائز نہیں ہے، چاہے کسی
مسلمان کے ہاتھ سے ہی مردار کیوں نہ ہوا ہو۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی ہے:
اَلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ
أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ
وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ
ترجمہ: آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں، اور اہل کتاب کا کھانا
تمہارے لیے حلال ہے، اور تمہارا کھانا ان کیلئے حلال ہے[المائدة : 5]
اس آیت نے ہمارے لیے واضح کر دیا ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے، اور اہل کتاب سے
مراد یہود اور نصاری ہیں ، تاہم اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ انہوں نے حلال جانور
کو غیر شرعی طریقے سے ذبح کیا ہے مثلاً: گلا دبا کر ، کرنٹ لگا کر، یا سر پر چوٹ
مار کر پہلے جانور کو مار دیا جاتا ہے، اور پھر اسے ذبح کرتے ہیں، اس طرح یہ جانور
ہمارے لیے ایسے ہی حرام ہو جاتا ہے جیسے کسی مسلمان نے جانور کو مار کر ذبح کیا ہو،
لیکن اگر ہمیں اس بات کا علم نہ ہو کہ اہل کتاب نے اس جانور کو کیسے ذبح کیا ہے تو
قرآن کریم کی آیت پر عمل کرتے ہوئے ہمارے لیے ان کا ذبیحہ حلال ہوگا" انتہی
"مجلة الجامعة الإسلامية" صفحہ: 156
اور آخر میں ہم آپ سے امید رکھیں گے کہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوی اپنے قریبی مسلمانوں تک پہنچائیں۔
واللہ اعلم.