الحمد للہ.
اول:
زانى شخص كا زانيہ عورت كے ساتھ توبہ كرنے سے قبل نكاح صحيح ہونے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور فقھاء كے ہاں يہ نكاح صحيح ہے.
اور حنابلہ كہتے ہيں كہ زانيہ كا توبہ كرنے سے قبل نكاح صحيح نہيں، انہوں نے زانى مرد كے ليے نكاح سے قبل توبہ كى شرط نہيں لگائى.
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 132 ) اور كشاف القناع ( 5 / 83 ).
توبہ يہ ہے كہ فعل كو چھوڑ ديا جائے اور اس پر نادم ہو اور آئندہ ايسا نہ كرنے كا پختہ عزم كيا جائے.
جن دو سوالوں كى طرف اشارہ كيا گيا ہے ان ميں نكاح صحيح نہ ہونے كا قول بيان ہوا ہے.
دوم:
اس نكاح ميں اختلاف پايا جاتا ہے، اور اسے فاسد نكاح كا نام ديا جاتا ہے، جس نے بھى اس نكاح كے فاسد ہونے كا اعتقاد ركھتے ہوئے ايسا نكاح كيا تو وہ زانى ہے، ليكن جو شخص اس نكاح كے صحيح ہونے كا اعتقاد ركھتے ہوئے يہ نكاح كرے ـ جيسا كہ اكثر لوگ مختلف فيہ نكاح كرتے وقت اعتقاد ركھتے ہيں مثلا ولى كے بغير نكاح، يا پھر ولى يا گواہوں كے فاسق ہونے كے ساتھ ـ تو اسے زانى شمار نہيں كيا جائيگا، اور اس نكاح پر صحيح نكاح كے اكثر احكام لاگو ہونگے:
چنانچہ خاوند كے ذمہ مہر واجب ہوگا، اور اولاد بھى اس كى طرف منسوب كى جائيگى، اور اگر طلاق دے تو طلاق بھى واقع ہو جائيگى.
طلاق ہو جانے كے بعد كسى كو بھى حق نہيں كہ وہ طلاق سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے يہ بحث كرتا پھرے كہ آيا نكاح صحيح تھا يا فاسد تھا، كيونكہ يہ تو دين كے ساتھ كھيل ہے، وہ اسے اپنى بيوى سمجھ كر اس سے فائدہ حاصل كرتا رہا اور پھر جس زوجيت كا وہ اعتقاد ركھتا تھا اسے ختم كرنے كے ليے بيوى كو طلاق دى، تو پھر اب وہ يہ كس طرح كہتا ہے كہ نكاح صحيح نہ تھا ؟!
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے ايك شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے ايسى عورت كے ساتھ نكاح كيا جس كا ولى فاسق تھا، وہ حرام كھاتا اور شراب نوشى كرتا تھا، اور گواہ بھى اسى طرح فاسق تھے، اور اس نے تين طلاق دے ديں تو كيا اس كے ليے اس سے رجوع كرنے كى اجازت ہے ؟
شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا جواب تھا:
جب اسے تين طلاق ديں تو يہ طلاق واقع ہو جائيگى، اور طلاق كے بعد جو شخص عقد نكاح كے طريقہ كو ديكھنے لگے اور طلاق سے قبل اس نےنكاح كے طريقہ نہ ديكھا تو يہ اللہ كى حدود سے تجاوز كرنے والا ہے، وہ طلاق سے قبل اور طلاق كے بعد اللہ كى حرام كردہ كو حلال كرنا چاہتا ہے.
امام مالك اور امام احمد وغيرہ كے ہاں فاسد نكاح جس ميں اختلاف ہو طلاق واقع ہو جاتى ہے، اور جمہور آئمہ كے ہاں فاسق كى ولايت ميں نكاح صحيح ہے " واللہ اعلم " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 32 / 101 ).
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" مختلف فيہ نكاح ميں جب وہ صحيح ہونے كا اعتقاد ركھتا ہو تو اس ميں دى گئى طلاق واقع ہو جائيگى " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 32 / 99 ).
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" تين طلاق دے دينے كے بعد كسى كو بھى حق حاصل نہيں كہ وہ ولى كو ديكھے كہ آيا وہ عادل تھا يا فاسق، تا كہ وہ ولى كے فاسق ہونے كو طلاق واقع نہ ہونے كا ذريعہ بنائے، كيونكہ اكثر فقھاء كرام فاسق شخص كى ولايت كو صحيح قرار ديتے ہيں، اور اكثر فقھاء اس طرح كے نكاح ميں طلاق كو واقع قرار ديتے ہيں بلكہ اس كے علاوہ دوسرے فاسد نكاحوں ميں بھى ...
يہ خاوند طلاق سے قبل تو بيوى سے جماع كرنا حلال كيے بيٹھا تھا، اور اگر وہ فوت ہو جاتى تو اس كا وارث بھى بنتا، اور وہ سارے معاملات صحيح نكاح والے كرتا رہا ہے، تو پھر طلاق كے بعد اب وہ اس سے فاسد نكاح والا معاملہ كيوں كر رہا ہے ؟!
اگر اس كى غرض نكاح صحيح ہونا ہو تو نكاح صحيح ہے اور اگر اس كى غرض فاسد ہو تو نكاح فاسد ہے، يہ قول تو مسلمانوں كے اجماع كے بھى مخالف ہے جو كہ سب اس پر متفق ہيں كہ جس نے بھى كسى چيز كے حلال ہونے كا اعتقاد ركھا تو اسے چاہيے كہ وہ اس كے حلال كا ہى اعتقاد ركھے چاہے وہ اس كى غرض كے موافق ہو يا مخالف.
اور جس شخص نے كسى چيز كے حرام ہونے كا اعتقاد ركھا تو بھى اسے دونوں حالتوں ميں اس كے حرام ہونے كا اعتقاد ركھنا چاہيے.
اور يہ طلاق دينے والے ولى كے فاسق ہونے كے بارہ ميں تين طلاق دينے كے بعد ہى سوچتے ہيں، اس وقت نہيں سوچتے جب وہ بيوى سے استمتاع كر رہے تھے، اور اس كے وارث بنتے وقت نہيں سوچتے، وہ صرف اپنى خواہش اور غرض كى بنا پر كبھى تو اس كى تقليد كرنے لگتے ہيں جو اس نكاح كو فاسد كہتا ہے، اور كبھى اس كى تقليد كرنے لگتے ہيں جو اسے صحيح كہتا ہے امت كا اتفاق ہے كہ ايسا كرنا جائز نہيں " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 204 ).
اور ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور ـ اس فاسد نكاح پر ـ صحيح نكاح كے اكثر احكام مرتب ہوتے ہيں، يعنى طلاق واقع ہو گى، اور موت كے بعد وفات كى عدت لازم ہوگى، اور اگر زندگى ميں خاوند سے عليحدگى ہوئى تو بھى عدت گزارنا ہوگى، اور عقد نكاح سے مہر واجب ہوگا، اور خلوت ہونے سے مہر دينا لازم ہو جائيگا اس ليے صحيح نكاح كى طرح مقرر كردہ مہر لازمى ہوگا " انتہى
ديكھيں: القواعد ( 68 ).
اور البھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نكاح كے صحيح ہونے ميں اختلاف والے نكاح مثلا ولى فاسق ہونا يا پھر گواہوں كے بغير نكاح ہونا يا بغير ولى كے نكاح يا پھر ايك بہن كو بائن طلاق دينے كى عدت ميں دوسرى بہن سے نكاح كرنا، يا نكاح شغار يعنى وٹہ سٹہ كا نكاح يا نكاح حلالہ يا بغير ولى يا بغير گواہوں وغيرہ كے نكاح ميں مثلا زانيہ كا عدت ميں نكاح كرنا يا پھر توبہ كرنے سے قبل نكاح كرنا اس ميں طلاق واقع ہو جائيگى بالكل اسى طرح جيسے صحيح نكاح ميں واقع ہوتى ہے " انتہى
ديكھيں: الكشاف القناع ( 5 / 237 ).
اس ميں ہمارے مسئلہ پر نص پائى جاتى ہے جو كہ زانيہ عورت كا توبہ سے قبل نكاح كرنا ہے، اور يہ كہ اس ميں دى گئى طلاق واقع ہو جائيگى.
اوپر بيان ہو چكا ہے كہ جمہور فقھاء اس نكاح كو صحيح قرار ديتے ہيں، اس بنا پر اس طرح كے نكاح ميں طلاق واقع ہونے ميں كوئى اشكال باقى نہيں رہا.
رہے حنابلہ تو وہ اس نكاح كو فاسد قرار ديتے ہيں، ليكن وہ بھى اس ميں دى گئى طلاق كو واقع قرار ديتے ہيں، اور آپ كے ليے حلال نہيں كہ آپ اپنے پہلے خاوند كے پاس واپس اس وقت تك نہيں جا سكتيں جب تك آپ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر ليں، اور يہ نكاح صحيح ہو اس مقصد سے كہ آپ اس كے ساتھ مستقل رہنا چاہتى ہيں، آپ كا مقصد حلالہ نہ ہو.
پھر اگر بعد ميں كسى بنا پر آپ كو دوسرا خاوند طلاق دے دے يا فوت ہو جائے تو آپ كو حق حاصل ہے كہ آپ اپنے پہلے خاوند سے نيا نكاح كر ليں.
واللہ اعلم .