الحمد للہ.
اول:
ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كو يہ ذمہ دارى پورى كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور اس پر جزائے خير عطا فرمائے.
دوم:
اس لڑكى ك اللہ كا شكر ادا كرنا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كى شادى كے ليے مناسب اسباب مہيا كيے، اور اسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى كرتے ہوئے جلد شادى كر لينى چاہيے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اے نوجوانوں كى جماعت تم ميں سے جو كوئى بھى استطاعت ركھتا ہے وہ شادى كرے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا تو وہ روزے ركھے، كيونكہ يہ اس كے ليے ڈھال ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5056 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1400 ).
اس لڑكى كو اس بات كا ادراك ہونا چاہيے كہ يہ ايك ايسى نعمت ہے جو شكر كى مستحق ہے، يہ علم ميں ركھے كہ دنيا ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنہيں يہ نعمت نہيں ملى اور ان كو يہ ميسر ہى نہيں ہوئى.
رہى تعليم تو يہ شادى سے تعارض نہيں ركھتى، بلكہ شادى اور تعليم دونوں كو جمع بھى كيا جا سكتا ہے، چاہے پرائيويٹ طرر پر ہى تعليم حاصل كى جائے.
سوال نمبر ( 1200 ) اور ( 103044 ) كے جوابات ميں ملازمت اور تعليم ميں مرد و عورت كے اختلاط پر كلام كى گئى ہے، آپ ان سوالات كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اسى طرح فلسفۃ كى تعليم حاصل كرنے كے متعلق حكم ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 88184 ) كے جواب كا مطالعہ كريں..
ذيل ميں شادى اور تعليم كے متعلق ہم آپ كے سامنے شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى نصيحت پيش كرتے ہيں:
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شادى جلد كرنا واجب ہے، كسى نوجوان كو تعليم كى بنا پر شادى ميں تاخير نہيں كرنى چاہيے، لڑكى كو پڑھائى كے ليے شادى ميں تاخير نہيں كرنى چاہيے، كيونكہ شادى تعليلم ميں مانع نہيں ہے، كيونكہ نوجوان آدمى كے ليے شادى كر كے اپنے دين اور اخلاق اور اپنى نظر كى حفاظت كرنے كے ساتھ ساتھ اپنى تعليم بھى جارى ركھ سكتا ہے، اور اسى طرح اگر كسى لڑكى كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى بہتر اور مناسب اور اس كے كفو كا رشتہ ميسر كر دے ت واسے شادى كرنے ميں تامل نہيں كرنا چاہيے بلكہ وہ شادى ميں جلدى كرے، چاہيے چاہے وہ ميٹرك يا ايف اے كى تعليم حاصل كر رہى ہو، يا پھر گريجويشن كر رہى ہو يہ شادى ميں مانع نہيں.
لہذا جب كوئى برابرى كا كفو والا رشتہ آئے تو شادى پر موافقت جلد كرنا اور جلد شادى كرنا واجب ہے اس ميں تعليم مانع نہيں ہے، اور اگر اس كے ليے تھوڑى سى دير كے ليے تعليم چھوڑنى بھى پڑے تو كوئى حرج نہيں، اہم يہ ہے كہ اسے وہ تعليم حاصل كرنى چاہيے جس سے وہ اپنے دين كو پہچان سكے اور باقى اس كے ليے فائدہ مند ہے، اور پھر شادى ميں خاص كر اس دور ميں بہت سارے فوائد ہيں؛ كيونكہ شادى ميں تاخير كرنے ميں لڑكے اور لڑكى كے ضرر اور نقصان ہے
اس ليے ہر جوان لڑكے اور لڑكى كو اگر صحيح اور مناسب رشتہ ميسر ہو تو وہ شادى جلد كريں، تاكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان پر عمل كيا جا سكے:
" اے نوجوانوں كى جماعت تم ميں سے جو كوئى بھى استطاعت ركھتا ہے وہ شادى كرے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا تو وہ روزے ركھے، كيونكہ يہ اس كے ليے ڈھال ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5056 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1400 ).
يہ حديث مرد و عورت سب كے ليے عام ہے، صرف مردوں كے ليے خاص نہيں بلكہ سب كو عام ہے اور سب كو شادى كرنے كى حاجتت وضرورت ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سب كو ہدايت نصيب فرمائے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات ممتنوعۃ ( 20 / 421 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
لوگوں ميں ايك عام عادت پھيل چكى ہے كہ لڑكى يا اس كا والد ميٹرك يا گريجويشن كى تعليم مكمل كرنے كا كہہ كر آنے والا رشتہ ٹھكرا ديتے ہيں، يا پھر يہ كہ وہ چند برس تك پڑھائيگى اور پھر شادى كرينگے ايسا كرنے كا حكم كيا ہے اور ايسا كرنے والوں كو آپ كيا نصيحت كريں گے؛ بعض لڑكياں تو چاليس برس يا اس سے بھى زيادہ كى عمر كو پہنچ جاتى ہيں اور ان كى شادى نہيں ہوتى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اس كے حكم ميں ہم يہ كہيں گے كہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو پسند كرتے ہو تو تم اس كى شادى كردو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اے نوجوانوں كى جماعت تم ميں سے جو كوئى بھى استطاعت ركھتا ہے وہ شادى كرے، كيونكہ يہ نظروں كو نيچا كر ديتى ہے اور شرمگاہ كى حفاظت كرتى ہے "
اور شادى نہ كرنا شادى كى بہت سارى مصلحتوں كو ختم كر كے ركھ ديتا ہے؛ اس ليے ميں عورتوں كے اولياء اور اپنے مسلمان بہنوں اور بھائيوں كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ پڑھائى كى تكميل يا پھر پڑھانے كى بنا پر شادى ميں ركاوٹ مت ڈاليں، بلكہ شادى كريں اور اس كے ليے ممكن ہے كہ عورت شادى كے بعد تعليم كى تكميل كرنے كى شرط ركھ لے.
اور اسى طرح سال يا دو برس تك پڑھانے كى شرط ركھے كہ جب تك اولاد نہ ہو وہ پڑھائيگى اور پھر چھوڑ دےگى تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
يہ كہ عورت ايسے علوم ميں گريجويشن كرتى پھرے جس كى كوئى ضرورت نہيں يہ غور و خوض كا محتاج ہے.
ميرى رائے تو يہى ہے كہ جب لڑكى پرائمرى كر لے اور وہ كتاب اللہ اور احاديث نبويہ پڑھنے كے اور لكھنے اور تفسير پڑھنے كے قابل ہو جائے اور اسے فائدہ دينے لگے تو يہى كافى ہے؛ الا يہ كہ اگر كوئى ايسا علم ہو جس كى لوگوں كو ضرورت ہو اور اس كے بغير كئى چارہ نہ ہو مثلا ميڈيكل وغيرہ ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے ايسا كرنے ميں كوئى شرعى ممانعت نہ پائى جائے اور مرد و عورت كا اختلاط نہ ہو " انتہى
ديكھيں: فتاوى علماء البلد الحرام ( 390 ).
اللہ سبحانہ و تعالى سب مسلمانوں كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب كرے جنہيں اللہ تعالى پسند فرماتا اور جن سے راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .