الحمد للہ.
جب آپ كى چچى نے آپ كو دو برس كى عمر كے اندر اندر پانچ رضاعت دودھ پلايا ہے تو وہ آپ كى رضاعى ماں اور آپ كا چچا آپ كا رضاعى باپ بن گيا، اور اس كى سب بيويوں سے سارى اولاد آپ كے رضاعى بہن بھائى بن جائيگے.
اس بنا پر جن لڑكيوں كے متعلق آپ سوال كر رہے ہيں اگر وہ آپ كے چچا كى بيٹياں ہيں تو وہ آپ كے ليے حرام ہيں، اور اگر وہ آپ كے چچا كے علاوہ كسى اور كى بيٹياں ہيں ( يعنى ان كى ماں پہلے كسى اور سے شادى شدہ تھى ) تو آپ كا ان سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں "
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب كوئى عورت كسى بچے كو پانچ معلوم رضاعت دو برس كے اندر اندر دودھ پلائے تو وہ اس كا اور اس كے خاوند جو صاحب دودھ ہے كا رضاعى بيٹا بن جائيگا، اور اس عورت كى سارى اولاد چاہے وہ اس خاوند سے ہو يا كسى اور سے اس بچے كے رضاعى بہن بھائى ہونگے.
اور جس عورت كا اس نے دودھ پيا ہے اس كے خاوند كى سارى اولاد چاہے وہ اس كى دوسرى بيويوں سے ہو وہ بھى اس بچے كے رضاعى بہن بھائى ہونگے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 22 / 274 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
" اگر تو پانچ رضاعت اور اس سے زيادہ ہوں اور دودھ خاوند كى طرف منسوب ہو كيونكہ اس خاوند كى اولاد ہے تو وہ آپ كے رضاعى والد اور والدہ كى جانب سے رضاعى بھائى ہونگے، اور رضاعى والد كى دوسرى بيوى بچے بھى آپ كے رضاعى والد كى جانب سے رضاعى بھائى ہونگے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 22 / 305 ).
واللہ اعلم .