جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اسلامى مجلس كا " روحانى باپ " نام ركھنا اور نصارى كو بھائى كہنا

118343

تاریخ اشاعت : 08-09-2013

مشاہدات : 4404

سوال

كيا انٹرنيٹ پر كسى اسلامى مجلس كا " العراب (godfather ) نام ركھنا جائز ہے ؟ يہ علم ميں رہے كہ يہ مسيحى بھائيوں كا روحانى باپ ہے، يا پھر رخصتى كى تقريبات ميں شركت كرنے والا بشپ ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال كا جواب دينے سے قبل دو چيزوں پر تنبيہ كرنا بہتر معلوم ہوتا ہے:

پہلى تنبيہ:

سوال ميں آپ نے مسيحى كے الفاظ استعمال كيے ہيں، ان الفاظ كى بجائے اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں جو نام ديا ہے انہيں وہى نام دينا بہتر ہے، اس ليے ہم انہيں نصارى كہيں گے، كيونكہ يہ ايسا لقب يا لفظ ہے جو ان كافروں كے تزكيہ پر دلالت نہيں كرتا، يا پھر ان كى عيسى عليہ السلام كى طرف نسبت كو بھى ظاہر نہيں كرتا كيونكہ حقيقت ميں تو انہوں نے عيسى عليہ السلام كے ساتھ كفر كا ارتكاب كيا اور دعوى كيا ہے كہ وہ الہ ہے يا پھر اللہ كا بيٹا ہيں ؟! نعوذ باللہ من ذلك.

حالانكہ اللہ سبحانہ نے اپنى كتاب قرآن مجيد ميں انہيں اہل كتاب اور نصارى كا نام ديا ہے، نصارى فلسطين ميں ايك بستى ناصرہ كى طرف منسوب ہے.

امام طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نصارى كو آپس ميں ايك دوسرے كى مدد كرنے كى بنا پر نصارى كہا گيا ہے، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ ناصرہ بستى ميں رہنے كى بنا پر انہيں نصارى كہا گيا ہے " انتہى

ديكھيں: تفسير الطبرى ( 2 / 144 ).

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كچھ عرصہ سے نصارى كے ليے " مسيحى " كا استعمال ہونے لگا ہے، كيا مسيحى كہنا صحيح ہے يا كہ نصارى كہنا چاہيے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

مسيحى مسيح بن مريم عليہ السلام كى طرف نسبت ہے ان كا گمان ہے كہ وہ ان كى طرف نسبت ركھتے ہيں؛ حالانكہ مسيح عليہ السلام ان سے برئ ہيں، اور پھر نصارى نے جھوٹ اور بہتان لگايا ہے كيونكہ مسيح عليہ السلام نے انہيں يہ تو نہيں كہا كہ وہ اللہ كے بيٹے ہيں، بلكہ انہوں نے تو كہا ميں اللہ كا بندہ اور اس كا رسول ہوں؛ ليكن نصارى نے جھوٹ بولا اور انہيں اللہ كا بيٹا كہہ ديا.

اس ليے انہيں نصارى كہنا ہى بہتر ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے بھى قرآن مجيد ميں انہيں يہى نام ديتے ہوئے فرمايا ہے:

اور يہوديوں نے كہا كہ نصارى كسى چيز پر نہيں اور نصارى نے كہا كہ يہودى كسى چيز پر نہيں حالانكہ وہ كتاب كى تلاوت كرتے ہيں البقرۃ ( 113 ).

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 5 / 387 ).

دوسرى تنبيہ:

آپ نے سوال ميں انہيں بھائى كے الفاظ سے پكارا ہے حالانكہ ايسا كرنا جائز نہيں.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كافر مسلمان كا بھائى نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

نہيں سوائے اس بات كے كہ مومن آپس ميں بھائى بھائى ہيں الحجراب ( 10 ) .

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان مسلمان كا بھائى ہے "

اس ليے كوئى بھى يہودى نصرانى يا مجوسى يا كيمونسٹ يا بت پرست وغيرہ كافر مسلمان كا بھائى نہيں اور اسے دوست اور ساتھى بنانا بھى جائز نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 6 / 392 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا كسى كافر كو بھائى كا وصف ديا جا سكتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے كسى بھى قسم كے كافر شخص كو بھائى كا وصف دينا جائز نہيں؛ چاہے نصرانى ہو يا يہودي يا مجوسى يا ملحد اسے بھائى كہنا صحيح نہيں ہے، اس ليے ميرے بھائى آپ اس طرح كى عبارت استعمال كرنے سے اجتناب كريں؛ كيونكہ مسلمانوں اور كفار كے مابين كبھى بھى بھائى چارہ نہيں ہے، كيونكہ اخوت و بھائى چارہ تو ايمانى اخوت ہے؛ جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

نہيں سوائے اس بات كے مومن آپس ميں بھائى بھائى ہيں .

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 3 / 43 ).

دوم:

ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنى اس اسلامى مجلس كا نام " روحانى باپ " مت ركھيں، كيونكہ ايك قبيح نام ہے، اور آپ نے اس نام سے اجتناب كے اسباب بھى بيان كر ديے ہيں اس سے ركنے كے يہى اسباب كافى ہيں كہ نصارى كے ہاں اس لفظ كا معنى " روحانى باپ ہے يعنى وہ " godfather " كہتے ہيں.

اس كے علاوہ ايك دوسرا سبب يہ بھى ہے كہ يہ ايك ايسے پروگرام كا نام ہے جو ايك فضائى چينل پر عرب كى تباہى كے ليے پيش كيا جا رہا ہے، اور كچھ يورپى ممالك ميں تو يہ نام ايك ڈرگ مافيا جو نشہ آور اشياء كو رواج دينے والے گروہ كا بھى نام ہے، اور اسى طرح اس گروہ كے حالات كے متعلق ايك مشہور فلم كا بھى يہى نام ہے.

اس ليے ہم ان مندرجہ بالا اسباب كى بنا پر آپ كو يہى نصحيت كرتے ہيں كہ آپ اس نام كو چھوڑ كر كوئى ايسا نام اختيار كريں جو آپ كے دين اسلام كے شايان شان بھى ہو اور آپ كى كتاب قرآن مجيد كى زبان كے بھى شايان شان ہو.

مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ہم نوجوانوں كا ايك گروہ الحمد للہ اسلامى تعليمات پر مكمل عمل كرتے ہيں، ايك ہى جگہ ملازمت كرتے اور ايك ہى جگہ رہائش ركھتے ہيں بعض اوقات دل بہلانے كے ليے ہم ايك دوسرے كو ايسے ناموں سے پكارتے ہيں جو ہمارے نام نہيں اور نہ ہى ہمارے دين ميں بولے جاتے ہيں مثلا: جرجيس پيٹرس، حنا، ميخائيل، بنيامين "

يہ علم ميں رہے ہم ميں سے كوئى بھى اس نام سے پكارے جانے پر ناراض نہيں ہوتا، ليكن يہ نام مسيحيوں كے ہاں معروف ہيں اور وہى يہ نام ركھتے ہيں تو كيا ان ناموں سے پكارنا حرام ہے ہم صرف بطور ہنسى مذاق ايك دوسرے كو ان ناموں سے پكارتے ہيں ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" يہ عمل جائز نہيں كيونكہ ناموں ميں كفار سے مشابہت ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

اس ليے واجب يہى ہے كہ ان كفار كے ناموں سے ايك دوسرے كو پكارنے سے اجتناب كيا جائے، اور بطور ہنسى مذاق بھى نہ پكارا جائے"

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى

الشيخ عبد العزيز آل شيخ.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ صالح الفوزان.

الشيخ بكر ابو زيد.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء ( 26 / 32 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب