منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

كيا بيوى پر خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے ؟

119740

تاریخ اشاعت : 16-08-2012

مشاہدات : 6067

سوال

ہم اكثر سنتے ہيں كہ فلاں نے چھوٹے سے سبب كى بنا پر بيوى كو طلاق دے دى يا پھر بيوى كو زدكوب كيا، مثلا بيوى نے كھانا نہيں پكايا، يا كھانا ليٹ ہو گيا يا كھانا جل گيا، جب خاوند كو پوچھيں كہ ايسا كيوں كيا تو جواب ديتا ہے بيوى نے شرعى واجب ميں سستى سے كام ليا ہے.
ليكن كيا آپ ميں سے كسى نے يہ سوچا كہ آيا بيوى پر خاوند كى خدمت كرنے كا شرعى حكم كيا ہے ؟
آيا بيوى پر شرعا خاوند كى خدمت اور كھانا پكانا يا لباس دھونا واجب ہے يا نہيں ؟
كيونكہ جمہور علماء كرام كے قول كے مطابق بيوى پر خاوند كى ان امور ميں خدمت كرنا واجب نہيں، ليكن اسے بغير كسى جبر كے اختيار ہے وہ اپنى مرضى سے كر سكتى ہے ميرا سوال يہ ہے كہ آيا يہ بات صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيوى پر خاوند كى خدمت كے واجب ہونے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور علماء كرام اسے واجب قرار نہيں ديتے، ليكن بعض اہل علم اسے واجب كہتے ہيں.

الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ميں درج ہے:

" فقھاء كرام كا اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ بيوى كے ليے اپنے خاوند كى گھر ميں خدمت كرنا جائز ہے، چاہے وہ ان عورتوں ميں شامل ہوتى ہو جو اپنى خدمت خود كرتى ہوں يا نہ كرنے والى ميں شامل ہوتى ہو، ليكن خدمت واجب ہونے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.

جمہور علماء كرام جن ميں شافعيہ حنابلہ اور بعض مالكيہ شامل ہيں كے ہاں بيوى پر اپنے خاوند كى خدمت كرنا واجب نہيں، ليكن اس كے ليے بہتر يہى ہے كہ وہ عادت اور رواج كے مطابق خدمت كرے.

احناف كے ہاں بيوى پر خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاطمہ اور على رضى اللہ تعالى عنہما كے مابين كام تقسيم كرتے ہوئے گھريلو كام كى ذمہ دارى فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا پر اور باہر كے اعمال على رضى اللہ تعالى عنہ پر ڈالى تھى.

اس ليے احناف كے ہاں بيوى كے ليے خاوند كى خدمت كرنے كى اجرت حاصل كرنا جائز نہيں ہے.

ليكن جمہور مالكى حضرات اور ابو ثور اور ابو بكر بن ابى شيبہ اور ابو اسحاق جوزجانى كہتے ہيں كہ بيوى كو گھريلو كام رواج اور عادت كے مطابق كرنا لازم ہيں، كيونكہ فاطمہ اور على رضى اللہ تعالى عنہما كے مابين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گھريلو كام كاج تقسيم كر ديے تھے، كہ فاطمہ گھر كے اندر والے اور على باہر كے كام سرانجام ديں گے.

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اگر ميں كسى شخص كو كسى دوسرے كے ليے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے، اور اگر آدمى اپنى بيوى كو جبل احمر سے جبل اسود تك جائے، اور جبل اسود سے جبل احمر تك جائے تواسے ايسا كرنا ہوگا "

جوزجانى كہتے ہيں: يہاں جو اطاعت ہے و ہ ايسى چيز ميں ہے جس كا كوئى خاوند كو فائدہ نہيں ليكن اگر خاوند كى معاش كا مسئلہ ہو تو پھر وہاں اطاعت كيسے نہ ہوگى.

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كو اپنى خدمت كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا كرتے تھے:

" عائشہ مجھے كھانا كھلاؤ، عائشہ مجھے ذرا چھرى پكڑاؤ اور اسے پتھر پر تيز كر دو "

امام طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہر وہ عورت جو گھر ميں روٹى پكا سكتى ہو يا آٹا پيس سكتى ہو اور رواج ہو كہ وہ عورت گھر ميں يہ كام خود كرے تو خاوند پر يہ كام لازم نہيں ہونگے " انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 44 ).

موسوعۃ ميں يہ بھى درج ہے:

" مالكيہ كا مسلك مزيد وضاحت سے بيان كرتے ہيں:

" .. ليكن اگر وہ امير ترين گھرانے سے تعلق ركھتى ہو تو اس پر خدمت واجب نہيں، اور اگر خاوند فقير الحال ہو تو خدمت كريگى " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 30/ 126 ).

خدمت لازم ہونے كى تاكيد اس بات سے بھى ہوتى ہے كہ اگر معاشرے ميں بيوى اپنے خاوند كى خدمت كرتى ہو اور لوگوں ميں عادت اور رواج ہو اور شادى ميں خدمت نہ كرنے كى شرط نہ لگائى گئى ہو تو بيوى كو خدمت كرنا ہوگى، كيونكہ اس كا اسى طرح شادى قبول كرنے كا معنى يہ ہے كہ وہ خدمت كرنا بھى قبول كر رہى ہے، اگر قبول نہ كرتى تو شادى ميں شرط ركھتى، اس ليے كہ عرف اور عادت و رواج شرط لگانے كے مترادف ہے.

اہل علم كى ايك جماعت نے بيوى كے ليے خاوند كى خدمت كرنا واجب بيان كرنے كے ساتھ اس كے دلائل بھى ذكر كيے ہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بيوى پر اپنے خاوند كى اچھے طريقہ سے مثل بمثل خدمت واجب ہے، اور يہ حالات كے مطابق مختلف ہوگى، لہذا ايك ديہاتى عورت كى خدمت شہرى عورت كى طرح نہيں، اور طاقتور عورت كى خدمت كمزور عورت جيسى نہيں، ہمارے اصحاب ميں سے ابو بكر بن ابى شيبہ اور جوزجانى نے يہى كہا ہے " انتہى

الاختيارات ( 352 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فصل: عورت كا اپنے خاوند كى خدمت كرنے كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم:

ابن حبيب " الواضحہ " ميں كہتے ہيں: جب على اور فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہما نے خدمت كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس شكايت كى تو رسول كريم صلى اللہ نے ان كے درميان يہ فيصلہ كيا كہ فاطمہ باطنى گھر كے كام كاج كرے اور على ظاہرى باہر والے كام كرے.

پھر ابن حبيب كہتے ہيں: باطنى خدمت يہ ہے كہ: آٹا گوندھنا، اور روٹى پكانا، صفائى كرنا پانى وغيرہ لانا اور گھر كا سارا كام كاج كرنا.

صحيح بخارى اور مسلم ميں مروى ہے كہ فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے چكى پيس كر ہاتھ خراب ہونے كى شكايت كرنے آئيں ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ كو گھر ميں نہ پايا، اور انہوں نے اس كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ذكر كيا، جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر تشريف لائے تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں فاطمہ كے آنے كا بتايا.

على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں: ہم اپنے بستر ميں ليٹ چكے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف لائے ہم نے اٹھنا چاہا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اپنى جگہ ہى رہو، آپ ہمارے درميان آ كر بيٹھ گئے حتى كہ ميں نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے پاؤں كى ٹھنڈك اپنے پيٹ پر محسوس كى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس چيز كا تم نے مطالبہ كيا ہے كيا ميں تمہيں اس سے بھى بہتر چيز نہ بتاؤں ؟

جب تم اپنے بستر پر آؤ تو 33 بارسبحان اللہ اور 33بار اور 33 بار اللہ اكبر كہو تو يہ تمہارے ليے خادم سے بھى بہتر ہے.

على رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: اس كے بعد ميں نے كبھى بھى يہ عمل ترك نہيں كيا.

عرض كيا گيا: صفين والى رات بھى ترك نہيں كيا؟ تو انہوں نے فرمايا: صفين والى رات بھى ترك نہيں كيا "

اور صحيح حديث ميں اسماء رضى اللہ تعالى عنہا سے ثابت ہے كہ وہ اپنے خاوند زبير رضى اللہ تعالى عنہ كے سارے گھر كى خدمت كيا كرتى تھى، اور ان كے گھوڑے كو چارا ڈالتى اور اس كى ديكھ بھال كرتى "

اسماء رضى اللہ تعالى عنہا سے ثابت ہے كہ وہ گھوڑے كو چارا ڈالتيں اور پانى لاتيں اور آٹا گوندھتى تھيں، اور دو ثلث فرسخ كى مسافت سے سر پر كھجور كى گٹھلياں اٹھا كر لاتيں.

اس ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے سلف اور خلف رحمہ اللہ ميں سے ايك گروہ گھر كى مصلحت والے كام كاج واجب قرار ديتے ہيں، ابو ثور كا كہنا ہے: بيوى اپنے خاوند كى ہر چيز ميں خدمت كريگى.

ليكن ايك گروہ كسى بھى چيز ميں خدمت واجب نہيں كرتا، ان ميں امام مالك امام شافعى اور ابو حنيفہ اور اہل ظاہر شامل ہيں، ان كا كہنا ہے كہ عقد نكاح تو استمتاع اور فائدہ كا متقاضى ہے نہ كہ خدمت كا، ان كا كہنا ہے اس سلسلہ ميں مذكورہ احاديث تو نفلى اور مكارم اخلاق پر مبنى ہيں اس ميں وجوب كہاں سے ثابت ہوتا ہے ؟

ليكن خدمت واجب كہنے والوں نے دليل اس سے لى ہے كہ يہى عادت اور معروف ہے جنہيں اللہ نے مخاطب كيا رہى عورت كہ وہ آرام كرے اور اس كا خاوند گھر كى صفائى كرتا پھرے اور خدمت كرے آٹا پيس كر گوندھے اور كپڑے دھوئے اور گھر كے سارے كام كرتا پھرے يہ تو ايك برا كام ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان تو يہ ہے:

اور ان عورتوں كو بھى ويسے ہى حقوق حاصل ہيں جس طرح ان كے حقوق ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ البقرۃ ( 228 ) .

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

مرد عورتوں پر نگران ہيں النساء (34).

اور جب عورت اپنے خاوند كى خدمت نہ كرے، بلكہ خاوند اپنى بيوى كا خادم ہو اور وہ خدمت كرے تو كيا يہ اس خاوند كى اپنى بيوى پر نگرانى و حكرانى ہے.

اور يہ بھى كہ مہر تو عورت كى شرمگاہ اور اس سے استمتاع كے حصول كے مقابلہ ميں ہے، اور خاوند و بيوى ميں سے ہر ايك دوسرے سے اپنى حاجت و ضرورت پورى كرتا ہے اور اللہ تعالى نے بيوى كا نان و نفقہ اور اس كى رہائش اور لباس وغيرہ تو استمتاع اور خدمت اور جو خاوندوں كى عادت ہے كے مقابلہ ميں واجب كيا ہے.

اور يہ بھى كہ مطلق معاہدے اور عقد تو عادات كے مطابق ہوتے ہيں اور انہيں عادات پر محمول كيا جاتا ہے، اور عرف اور رواج تو يہى ہے كہ عورت اپنے خاوند كى خدمت كرتى اور گھر كے كام كاج كرتى ہے.

ان كا يہ كہنا كہ فاطمہ اور اسماء رضى اللہ تعالى عنہما كى خدمت تو احسان و نيكى اور نفلى طور پر تھى، اس كا رد يہ ہے كہ فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا خدمت كى بنا پر تكليف اٹھاتى تھيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ نہيں فرمايا كہ خدمت كرنا اس پر لازم نہيں بلكہ خدمت تو تمہيں كرنى چاہيے.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم حكم اور فيصلہ ميں كسى كى طرف مائل نہيں ہوتے تھے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسماء رضى اللہ تعالى عنہا كو سر پر چارا اٹھائے ہوئے ديكھا اور زبير رضى اللہ تعالى عنہ بھى ان كے ساتھ تھے تو آپ نے يہ نہيں فرمايا كہ: اس پر خدمت كرنا فرض نہيں، اور يہ ظلم ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدمت كو صحيح قرار ديا، اور سب صحابہ كرام نے بھى اپنى بيويوں سے خدمت كرانا صحيح قرار ديا، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو علم تھا كہ كچھ اسے ناپسند بھى كرتى ہيں اور كچھ رضامند بھى ہيں، اس ميں كوئى شك و شبہ والى بات ہى نہيں ہے.

اور كسى گھٹيا اور شريف اور اسى طرح مالدار اور فقير و محتاج ميں فرق كرنا صحيح نہيں، ديكھيں سب سے شان و شرف و الى عورت اپنے خاوند كى خدمت كر رہى ہے، اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس خدمت كى شكايت لے كر حاصل ہوتى ہے ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى شكايت نہيں سنى.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حديث ميں عورت كو قيدى كا نام ديتے ہوئے فرمايا:

" تم عورتوں كے متعلق اللہ كا تقوى اختيار كرو، يقينا وہ عورتيں تمہارے پاس قيدى ہيں "

العانى: قيدى كو كہا جاتا ے، اور قيدى كا رتبہ يہى ہے كہ وہ جس كى قيد ميں ہے اس كى خدمت كرے، اور اس ميں بھى كوئى شك و شبہ نہيں كہ نكاح قيد اور غلامى كى ايك قسم ہے، جيسا كہ سلف رحمہ اللہ نے كہا ہے: نكاح غلامى ہے اس ليے تمہيں يہ ديكھنا ہوگا كہ وہ اپنى عزيزہ لڑكى كو كس كى غلامى اور قيد ميں دے رہا ہے، منصف شخص كے ليے مسلك ميں راجح قول مخفى نہيں رہا، اور دليل كے اعتبار سے كيا قوى ہے وہ بھى واضح ہوچكا ہے " انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 186 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بيوى كا اپنے خاوند كى خدمت كا مسئلہ عرف اور رواج كى طرف رجوع كرتا ہے، جو عرف اور رواج ميں ہو كہ بيوى اپنے خاوند كى خدمت كرتى ہو اس ميں اس پر خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے، اور جس ميں خدمت كا رواج اور عرف نہ ہو اس ميں واجب نہيں ہوگى، اور يہ جائز نہيں ہے كہ خاوند اپنے والدين كى خدمت پر بيوى كو مجبور كرے، اور اگر بيوى اپنى ساس اور سسر كى خدمت نہيں كرتى تو خاوند كو ناراض ہونے كا حق نہيں ہے.

اسے اس سلسلہ ميں اللہ سےڈرنا اور اللہ كا تقوى اختيار كرنا، وہ اس ميں اپنى طاقت اور قوت كا مظاہرہ نہ كرے كيونكہ اللہ تعالى اس سے بھى زيادہ طاقت ركھتا ہے، اور وہ بہت ہى بلند و بالا ہے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اگر بيوياں تمہارى اطاعت كرنے لگيں تو پھر تم ان پر كوئى راہ تلاش مت كرتے پھرو، يقينا اللہ تعالى بہت ہى بلند و بالا ہے انتہى

ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.

اور الشرح الممتع ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صحيح يہى ہے كہ بيوى پر اپنے خاوند كى بہتر اور اچھے طريقہ سے خدمت كرنے كو لازم كيا جائيگا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 441 ).

شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا بيوى پر اپنے خاوند كے ليے كھانا پكانا واجب ہے ؟

اور اگر وہ نہيں پكاتى تو كيا نافرمان كہلائيگى ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" مسلمانوں ميں ابھى تك يہى عرف اور رواج ہے كہ بيوى اپنے خاوند كى عادت كے مطابق خدمت كرتى ہے، اس كے ليے كھانا پكاتى اور اس كے كپڑے دھوتى اور گھر كے برتن وغيرہ صاف كرتى اور گھر كى صفائى بھى كرتى ہے، اور ہر وہ كام جو اس كے مناسب ہو انجام ديتى ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے آج تك يہى عرف اور رواج چل رہا ہے اس كا كوئى انكار نہيں كرتا، ليكن بيوى كو ايسا كام كرنے كى مكلف نہيں كرنا چاہيے جس ميں اس كے ليے مشقت ہو وہ اس كے ليے مشكل ہو، بلكہ عادت اور قدرت و استطاعت كے مطابق ہونا چاہيے، اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى العلماء فى عشرۃ النساء ( 20 ).

اس سے يہ راجح ہوا كہ عادت اور عرف كے مطابق خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے، اور عورت كو گھريلو كام كاج كرنا ہوگا، اسى طرح خاوند گھر كے باہر كے كام جس ميں كمائى وغيرہ شامل ہے سرانجام دےگا.

جو شخص جمہور علماء كرام كے قول خدمت واجب نہ ہونے كو ليتا ہے اسے ہم يہ كہيں گے كہ جمہور علماء كرام تو بيوى كے بيمار ہونے پر خاوند كو علاج كرانا بھى واجب نہيں كہتے كيونكہ ان كا كہنا ہے يہ بنيادى اور اساسى ضرورت نہيں، يا پھر نفقہ تو نفع كے مقابلہ ميں ہے، اور علاج معالجہ تو اصل جسم كى حفاظت كے ليے ہے.

ليكن جو يہ ديكھے كہ اس دور ميں تو علاج معالجہ اساسى اور بينادى ضرورت بن چكى ہے اس كے ليے يہى واضح ہوگا كہ بيوى كا علاج معالجہ كرانا واجب ہے.

سوال نمبر ( 83815 ) كے جواب ميں اس كى تفصيل بيان ہو چكى ہے آپ اس مطالعہ كريں.

اور يہ سوچا جائے كہ اگر بيوى نے گھر كے كام كاج نہيں كرنے تو اور كون كريگا ؟

كيونكہ خاوند تو سارا دن كمائى ميں مشغول رہتا ہے، اور اكثر لوگ گھر ميں ملازمہ ركھنے اور اس كى اجرت برداشت كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے.

اور اگر عورتيں خاوند كى خدمت نہ كريں اور گھريلو كام كاج سے انكار كر ديں تو مرد ان سے شادى كرنے سے ہى اعراض كرنے لگيں گے، يا پھر وہ عقد نكاح ميں خدمت كى شرط ركھيں گے تا كہ كوئى اشكال ہى نہ رہے.

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب