الحمد للہ.
"اللہ تعالی کا علم اور رحمت ہر چیز کو محیط ہے، اس کی قوت و طاقت اور قہر و جبروت ہر چیز پر حاوی ہے، اس کی ذات ہر عیب سے پاک اور ہر چیز اسی کی کامل حکمت ،مکمل قدرت ، اور ارادے سے نافذ ہوتی ہے، وہ لوگوں میں سے جسے چاہتا ہے خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا نبی اور رسول بنا کر انتخاب کر لیتا ہے، انبیاء میں سے جسے چاہتا ہے دوسرے پر فضیلت عطا کر دیتا ہے ۔اللہ نے اپنے فضل و رحمت سے جسے چاہا ہے خصوصیات عطا کی ہیں ؛ لہذا ابراہیم اور محمد علیہما الصلاۃ و السلام کو اپنا خلیل بنایا، اسی طرح ہر نبی کو ان کے زمانے کے اعتبار سے مناسب معجزات اور نشانیاں عطا فرمائیں، جن کے ذریعے سے عدل اور حکمت الہی کے مطابق انہوں نے اپنی قوم پر حجت قائم کی، اللہ تعالی کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا وہ قوت والا با حکمت ، جاننے اور خبر رکھنے والا ہے۔
[کسی بھی نبی کو انفرادی طور پر ملنے والی]ہر خصوصیت بذات خود [ان کی ]مطلق افضلیت ثابت نہیں کرتی؛ لہذا عیسی علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لینے کی خصوصیت بھی اللہ تعالی کی حکمت و مشیت کے مطابق تھی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ عیسی علیہ السلام اپنے دیگر [انبیاء اور رسول]بھائیوں مثلاً: سیدنا ابراہیم، سیدنا محمد، سیدنا موسی اور سیدنا نوح علیہم الصلاۃ و السلام سے افضل ہیں، کیونکہ ان انبیائے کرام کو بھی ایسی انفرادی خصوصیات عطا کی گئی ہیں جن سے ان کی عیسی علیہ السلام پر افضلیت ثابت ہو سکتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ معاملہ اللہ تعالی کی مرضی پر منحصر ہے، کیونکہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے علم و حکمت کے کمال کا تقاضا ہے کہ اس کے افعال کی کوئی بازپرس نہیں ہے۔
اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کے سوال سے نہ تو کوئی عبادت مترشح ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی عقیدہ ثابت ہوتا ہے، بلکہ اس کے برعکس ان امور میں پڑنے والا شخص مختلف شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ایک مومن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اللہ کے امور کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور بندوں کی عقیدہ اور بندگی کے اعتبار سے جو ذمہ داری ہے اسے صحیح طور پر بجا لانے کوشش کرے، یہی انبیائے کرام اور رسولوں کا طریقہ ہے، یہی خلفائے راشدین اور سلف صالحین کا منہج ہے۔ واللہ اعلم
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر" انتہی
شیخ عبد العزیز بن عبد الله بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد الله بن غدیان ، شیخ عبد الله بن قعود ۔.