الحمد للہ.
اول:
سوال نمبر ( 10680 ) كے جواب ميں خاوند اور بيوى دونوں كے حقوق كا تفصيلى بيان گزر چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
ازدواجى زندگى سختى و جبر اور قہر و غم اور پريشانى پر قائم نہيں، بلكہ يہ تو الفت و محبت و مودت پر قائم ہوتى ہے، اسى ليے شادى اللہ سبحانہ و تعالى كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى قرار دى گئى ہے، جس گھر ميں خاوند اور بيوى آپس ميں ايك دوسرے سے حسن معاشرت اوراچھا سلوك نہيں كرتے اور محبت و مودت قائم نہيں ركھتے، اور اللہ تعالى كى جانب سے واجب كردہ حقوق كى ادائيگى نہيں كرتے وہ گھر كبھى بھى سعادت مند نہيں كہلاتا.
خاوند اور بيوى كو چاہيے كہ اگر وہ اپنا حق مانگتا ہے تو اسے دوسرے كا حق پہلے ادا كرنا چاہيے، جيسا كہ سوال ميں بيان كيا گيا ہے يہ خاوند اپنى بيوى اور بچے كے حقوق كى ادائيگى ميں كوتاہى كا مرتكب ہوا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اپنے آپ اور اپنے پروردگار اللہ تعالى كے حق ميں كوتاہى كا مرتكب ٹھرا ہے، اسے نصيحت كى ضرورت ہے كہ كوئى ناصح شخص اسے بہتر طريقہ سے وعظ كرے، اور اسے اللہ كى ياد دلائے كہ كل روز قيامت اللہ كے سامنے پيش ہو كر تم نے اپنى بيوى اور بچے كے بارہ ميں جواب بھى دينا ہے، اور اللہ كى جانب سے اسے بيوى اور بچوں كى ديكھ بھال كى جو ذمہ دارى دى گئى ہے اس كى باز پرس بھى كى جائيگى.
اور اسى طرح كسى دوسرے مسلمان شخص كو اور خاص كر اپنى بيوى جو اس كے بچوں كى ماں ہے پر سب و شتم حرام ہے، اور اسى طرح مخرب الاخلاق اور گندى فلميں قبول اور حاصل كرنا بھى حرام ہيں جہ جائيكہ ايسى گندى فلموں كا مشاہدہ كيا جائے، اور سودى قرض حاصل كرنا بھى اللہ نے حرام كيا ہے، اسى طرح اس كے ليے بيوى پر تنگى كرنا اور اسے اذيت دينا بھى حلال نہيں كہ بيوى كے حقوق كى ادائيگى نہ كر كے اسے اذيت سے دوچار كرے، ان حقوق ميں بيوى اور بچے كے اخراجات بھى شامل ہيں، اسلام نے خاوند پر بيوى كے اخراجات واجب كيے ہيں چاہے بيوى كتى بھى مالدار ہو ا سكا خرچ خاوند ہى برداشت كريگا.
بيوى كى ملازمت اور اس كے متعلقہ امور كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 103422 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
خاوند كے برے سلوك اور سوء اخلاق اور نان نفقہ نہ دينے يا پھر حقوق زوجيت ميں كوتاہى كرنے كى بنا پر بيوى كے ليے طلاق كا مطالبہ كرنا جائز ہے، اور اسے پورے حقوق ديے جائيں گے، جو عورت بھى كسى شرعى سبب كى بنا پر طلاق طلب كرے وہ طلاق طلب كرنے كى وعيد ميں شامل نہيں ہوتى كيونكہ بغير كسى شرعى سبب كے طلاق طلب كرنا جائز نہيں ہے.
ثوبان رضى اللہ تعلى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كا اپنے خاوند سے طلاق طلب كرنے كے سلسلہ ميں وعيد والى جتنى بھى احاديث ہيں وہ بغير كسى سبب پر طلاق طلب كرنے پر محمول ہيں "
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 402 ).
بيوى كے ليے اپنے خاوند سے طلاق طلب كرنے كے اسباب معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 20002 ) اور ( 101912 ) اور ( 13243 ) اور ( 13803 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
سوم:
مزيد آپ سوال نمبر ( 8189 ) اور ( 9463 ) كے جوابات بھى ديكھيں يہ خاصے اہميت كے حامل ہيں.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
يا تو بيوى اپنے خاوند كى اذيت و تكليف پر صبر كرتے ہوئے اس كى اصلاح كى كوشش كرے، اور براہ راست اصلاح كے ليے بات نہ كرے بلكہ وہ عقل و دانش ركھنے والے كسى مصلح شخص كو درميان ميں ڈالے جو حكمت كے ساتھ يہ كام سرانجام دے.
يا پھر اگر اصلاح كى كوشش كامياب نہ ہو، اور خاوند اس كے ساتھ رويہ تبديل نہ كرے تو پھر وہ طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہے اور طلاق كى صورت ميں اسے سارے اور مكمل حقوق حاصل ہونگے.
ان حقوق ميں بچہ ماں كى پرورش ميں ہوگا، اور اگر خاوند طلاق دينے سے انكار كرے اور بيوى خاوند كے رويہ كو برداشت نہ كر سكے تو وہ مہر سے دستبردار ہو كيا اپنے آپ كو چھڑانے كے ليے خاوند سے خلع حاصل كر سكتى ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 101423 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .