الحمد للہ.
شادى اللہ سبحانہ و تعالى كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى اور نعمتوں ميں سے ايك نعمت ہے، جس ميں خاوند اور بيوى سكون و اطمنان اورمحبت و انس پاتے ہيں، اور اسكے ساتھ ساتھ دونوں كو عفت و عصمت اور پاكبازى حاصل ہوتى ہے، اور نيك و صالح اولĀاد پيدا ہوتى ہے جو اللہ كے منھج كے مطابق زمين آباد كرتى ہے. جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام پاؤ اسنے تمہارے درميان محبت اور ہمدردى قائم كردى يقينا غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں الروم ( 21 ). ان مقاصد كى بنا پر شادى مشروع كى گئى ہے، اس ليے اگر يہ مقاصد ہى پورے نہ ہوں تو پھر طلاق كى راہ مشروع ہے تا كہ دوسرى ازدواجى زندگى كى راہ بنائى جا سكے جس ميں نكاح كے اہداف و مقاصد پورے ہو سكيں. آپ نے و خاوند كى جانب سے بائيكاٹ اور برے سلوك كا ذكر كيا ہے اور پھر وہ جعلى سند كے ساتھ حرام كھاتا ہے يہ سب ايسے اسباب ہيں جن كى بنا پر آپ كے ليے طلاق مباح ہو جاتى ہے كيونكہ ترمذى ابن ماجہ اور ابو داود ميں حديث مروى ہے:
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے خاوند سے طلاق كا مطالبہ كيا تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " بغير كسى سبب كے "
يعنى بغير كسى تنگى كے جس سے عليحدگى كا مطالبہ كرنے كى ضرورت آئے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كے معاملہ ميں آسانى پيدا فرمائے اور آپ كى معاونت كرے.
واللہ اعلم .