الحمد للہ.
اہل علم كا راجح قول يہى ہے كہ ہر وہ عيب جس سے كوئى ايك نفرت كرے يعنى خاوند يا بيوى كو متنفر كرنے كا باعث ہو يا اس سے نقصان ہوتا ہو، يا پھر نكاح كا مقصد فوت ہونے كا باعث ہو تو اس عيب كو واضح كرنا ضرورى ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور يہ قياس كرنا كہ ہر وہ عيب جو دوسرے كو منتفر كرے اور اس سے نكاح كا مقصد حاصل نہ ہو يعنى محبت و مودت پيدا نہ ہوتى ہو تو يہ اختيار كو واجب كرتا ہے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 166 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور صحيح يہ ہے كہ ہر وہ جس سے نكاح كا مقصد فوت ہو جائے عيب كہلاتا ہے، اور بلاشك نكاح كے سب سے اہم مقاصد ميں متعہ يعنى فائدہ حاصل كرنا، اور خدمت اور اولاد پيدا كرنا ہے، اس ليے اگر اس ميں كوئى مانع ہو تو وہ عيب كہلائيگا.
اس بنا پر اگر بيوى اپنے خاوند كو بانجھ پائے، يا پھر خاوند بيوى كو بانجھ پائے تو يہ عيب ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 220 ).
اور سوال نمبر ( 111980 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ يہ تين امور ميں منضبط ہوتى ہے:
1 ـ يہ بيمارى ازدواجى زندگى پر اثرانداز ہوتى ہو، اور خاوند اور اولاد كے حقوق كى ادائيگى پر اثر كرے.
2 ـ يا پھر يہ بو يا منظر كى بنا پر خاوند كو متنفر كرے.
3 ـ اور يہ حقيقى ہو نہ كہ وہمى اور خيالى اور مستقل ہو نہ كہ عارضى يعنى كچھ مدت كے بعد ختم ہو جائے، يا پھر شادى كے بعد جاتى رہے.
اس بنا پر اگر تو ديكھنے والا پستان چھوٹے ہونا عيب شمار كرتا ہے يا پھر خاوند كو متنفر كرے تو پھر منگيتر كو ضرور بتانا چاہيے وگرنہ نہيں.
اور اگر بالوں ميں سفيدى زيادہ ہے تو اس كا بيان كرنا ضرورى ہے؛ كيونكہ زيادہ ہونا خاوند كو متنفر كرنے كا باعث ہے اور اس طرح وہ محسوس كريگا كہ بيوى نے اسے دھوكہ ديا ہے.
واللہ اعلم .