الحمد للہ.
اس مسئلہ میں صحیح قول جس پر عمل کرنا واجب ہے وہی قول ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے کہ :
( روزے چاند دیکھ کر رکھو اور ان کا اختتام بھی چاند دیکھ کر کرو اور اگر موسم ابر آلود ہو تو پھر دنوں کی تعداد مکمل کرو )
لھذا معتبر اور صحیح قول یہی ہے کہ رمضان کے مہینہ کی ابتداء اور انتہاء چاند کو دیکھ کر ہی ہوگی کیونکہ وہ شریعت اسلامیہ جس کے لۓ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا ہے وہ سب کے لۓ عام ومستقل اور ہمیشہ و قیامت تک کے لۓ ہے ۔
( وہ شریعت اسلامیہ ہر زمانے اور وقت وجگہ کے لۓ پر صلاحیت ہے چاہے دنیاوی علوم ترقی یافتہ ہوں یا کہ ترقی پذیر ہوں اور آلات پائے جائیں یا نہ پائے جائیں اور یا پھر کسی ملک کے لوگ علم فلکیات میں ماہر ہوں یا کہ ماہر نہ ہوں یہ سب برابر ہیں ۔
رویت ہلال پر عمل کرنا ہر زمانے اور وقت اور شہر وملک میں ہر شخص کی طاقت وبس میں ہے بخلاف فلکی حسابات کے کہ اس کے جاننے والے کبھی موجود ہوں گے اور کبھی نہیں اور اسی طرح آلات بھی کبھی پائے جائیں اور کبھی نہیں )
دوم : اللہ تعالی کو علم فلکیات اور دوسرے علوم میں جو کچھ ہو ترقی ہو چکی اور جو ابھی نہیں ہوئی اس کا بھی علم ہے تو اس کے باوجود اللہ تبارک وتعالی نے یہ فرمایا ہے :
( تم میں جو شخص اس مہینہ کو پآئے وہ اس کے روزے رکھے ) البقرہ / 185
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے فرمان میں میں کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے :
( روزے چاند دیکھ کر رکھو اور ان کا اختتام بھی چاند دیکھ کر کرو ) الحدیث
لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزے رکھنے اور ان کا اختتام چاند کو دیکھنے کے ساتھ معلق کیا ہے نہ کہ مہینہ کو معلوم کرنے کے لۓ علم فلکیات اور علم نجوم کے ساتھ باوجود اس کے اللہ تعالی اس کا علم رکھتا ہے کہ علم فلکیات والے ستاروں کے حساب اور ان کا مدار میں چلنے وغیرہ کے حسابات میں بہت زیادہ ترقی کریں گے ۔
اس کے لۓ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس شریعت پر چلیں جسے اللہ تعالی نے ان کے لۓ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مشروع کیا ہے کہ رمضان کے روزوں کی ابتداء اور اختتام کے لۓ چاند کے دیکھنے پر بھروسہ کیا جائے اور یہ اہل علم کے اجماع کی طرح ہے تو جو بھی اس کی مخالفت کرتا اور ستاروں کے حساب پر بھروسہ کرتا ہے اس کا قول شاذ ہے اس کا کوئی اعتبار اور بھروسہ نہیں ہو گا ۔ واللہ تعالی اعلم .