الحمد للہ.
زکاۃ کے مصارف اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعے بیان کر دیے
ہیں:
(
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ
وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ
وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ
وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے
لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں
اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے
ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا
ہے۔ [التوبة:60]
اور جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ : " وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ " سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
اس کے بارے میں مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (21805) اور (6977) کا مطالعہ کریں۔
لہذا مدارس، مساجد، اور جائے نماز کی تعمیر و مرمت زکاۃ کے اموال میں سے نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح حفظ قرآن کے مقابلوں میں بھی زکاۃ صرف نہیں کی جاسکتی، تاہم ان مثبت سرگرمیوں کیلئے مالی تعاون حاصل کرنے کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں، جن میں عام صدقات، اوقاف، اور ہبہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"ہمارے ہاں ایک رفاہی ادارہ ایک میگا پروجیکٹ بنانا چاہتا ہے، جس میں جامع مسجد،
اسلامی عربی مدرسہ، اور اس میں حفظ قرآن کیلئے خصوصی شعبہ قائم کیا جائے گا، نیز
میڈیکل سنٹر بھی اس میں شامل ہے، تو کیا یہ رفاہی ادارہ اس قسم کے پروجیکٹ مکمل
کرنے کیلئے زکاۃ کا مال لے سکتا ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اصولی طور پر زکاۃ صرف انہیں آٹھ مصارف میں خرچ کی جائے گی جنہیں قرآن مجید میں
ذکر کیا گیا ہے، اور ان میں فقراء، مساکین، زکاۃ جمع کرنے والے کارندے، تالیف قلبی
کیلئے، مکاتب غلام، مقروض لوگ، مجاہدین، اور مسافر شامل ہیں، تاہم کچھ علمائے کرام
کا کہنا ہے کہ رفاہی امور بھی "فی سبیل اللہ" میں شامل ہیں ، لیکن بہتر یہی ہے کہ
اس سے مراد صرف جہاد ہے۔
اس لیے مذکورہ پراجیکٹ کیلئے زکاۃ سے ہٹ کر مالی تعاون حاصل کریں، زکاۃ اس پر خرچ
نہ کریں" انتہی
"فتاوى الشیخ ابن جبرين"
اسی طرح "فتاوى اللجنة الدائمة" (9/447) میں ہے کہ:
"قرآن کریم کے مدارس کو زکاۃ دینے سے متعلق یہ ہے کہ اگر زکاۃ دہندہ شخص نے مدرسے
کے سربراہ کو یا کسی ذمہ دار کو اس لیے زکاۃ دی کہ مستحق طلباء وغیرہ میں تقسیم کر
دے تو یہ جائز ہے، بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں بھی منتقل کی جا سکتی ہے، لیکن
اگر مدرسہ کے ذمہ دار کی طرف سے یہ رقم قرآنی تعلیم کیلئے مدرسے کے مجموعی بجٹ میں
شامل کر دی جائے تو یہ درست نہیں ہے" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا ایسا ممکن ہے کہ زکاۃ کی رقم مساجد، مدارس، اور قرآنی تعلیم کیلئے بنائے گئے
مکاتب پر صرف کی جائے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس بارے میں علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں، اور اس کا سبب یہ ہے کہ: قرآن مجید
میں مذکور"
وفي سبيل الله"
سے مراد کیا ہے؟ کیا اس سے مراد مفاد عامہ کا ہر وہ کام ہے جو قرب الہی کا سبب بنے
، یا پھر اس سے مراد صرف جہاد ہے؟ ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد صرف جہاد فی
سبیل اللہ ہے، کیونکہ جب "
وفي سبيل الله
" کا لفظ مطلق بولا جائے تو اس سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہی ہوتا ہے، اور اگر اس
سے مراد ہر رفاہی کام لے بھی لیں تو قرآن مجید میں "
إنما الصدقات۔۔۔"
میں کلمہ حصر کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہ جاتا ، ویسے بھی اگر "فی
سبیل اللہ"
کے مفہوم کو جہاد فی سبیل اللہ ہی تک محدود رکھیں تو یہ زیادہ محتاط ہے، اور محتاط
پر عمل کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سائل نے مدارس وغیرہ کی تعمیر کا ذکر کیا ہے یہ سب اچھے کام ہیں، لوگوں کو ان کی
تعمیر کیلئے ترغیب دینی چاہیے، اور اس کیلئے زکاۃ سے ہٹ کر کوئی اور ذریعہ تلاش
کریں ، مثلاً: نفلی صدقات، عطیات وغیرہ" انتہی
"فتاوى نور على الدرب"
واللہ اعلم.