الحمد للہ.
مسجد نبوى ميں نماز ادا كرنے كا اجروثواب بہت زيادہ ہے جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميرى اس مسجد ميں ايك نماز مسجد حرام كے علاوہ باقى سب مساجد ميں ايك ہزار نماز سے بہتر ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1190 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1394 ).
يہ حديث فرضى اور اس نماز كو شامل ہے جو باجماعت ادا كرنا مستحب ہے مثلا تراويح.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے كہ:
" گھر ميں نفلى نماز ادا كرنا مستحب ہے، چاہے وہ سنن رواتب ہوں يا غير راتب، مگر وہ نماز جو شريعت نے مسجد ميں ادا كرنا مشروع كى ہے، مثلا تحيۃ المسجد، اور اسى طرح وہ نماز جو شريعت نے باجماعت ادا كرنامشروع كى ہے، مثلا نماز تراويح اور نماز كسوف اور خسوف يہ مسجد ميں ادا كى جائيگى.
اور اسى طرح نماز عيد اور نماز استسقاء يہ عيدگاہ ميں ادا كى جائيگى " انتہى مختصرا
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 239 ).
آپ كے دوست كا مسجد نبوى ميں ادا نہ كرنا اور اس كا سبب خشوع بتانا بلاشك نماز ميں خشوع اور اصلاح قلب مطلوب ہے، اور قرآن مجيد اچھى آواز سے تلاوت كرنا اس ميں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے، اور سامع اس سے اثرانداز بھى ہوتا ہے.
اس ليے اگر آپ كا دوست كسى دوسرى مسجد ميں جا كر نماز ادا كرتا ہے جہاں اس كو زيادہ خشوع حاصل ہوتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اس نے فضيلت والى جگہ چھوڑى ہے، اور اس نے اس فضيلت كى حرص ركھى جو بالذات نماز يعنى خشوع ہے.
اور دو فضيلتوں كے تعارض كے وقت ـ جيسا كہ آپ كے دوسب كا حال ہے ـ تو عبادت كى ذات ميں جو فضيلت ہے اسے مقدم كرنا چاہيے.
شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
" اچھى آواز اور بہترين قرآت كا دل پر اثر ہوتا ہے، اور دل كو حاضر كرنے ميں مؤثر ثابت ہوتى ہے، اور بدن ميں خشوع اور اللہ كى كلام سے متاثر ہونے ميں ممد و معاون ثابت ہوتى ہے اور اسے سننے ميں لذت آتى ہے، جس كى بنا پر اسے سمجھنا آسان اور اس كے معانى كا ادراك سہل ہوتا ہے، اور اس پر غور و فكر اور تدبر كرنا اور اس كے اعجاز كو پہچاننا اور اس كى بلاغت اور قوت اسلوب كو سمجھنا آسان ہوتا ہے.
اور يہ سب كچھ اس پر عمل كا سبب بنتا ہے، اور قرآن مجيد كى راہنمائى و ارشادات كے قبول كا باعث بنتا ہے، اس ليے جو كوئى بھى اچھى آواز والا تجويد كے ساتھ پڑھنے والا اور خشوع و خضوع اور اطمنان كے ساتھ پڑھنے والا قارئ تلاش كرے اس كو عيب نہيں ديا جا سكتا.
كيونكہ اس طرح كے شخص كے پيچھے نماز ادا كرنا مقصود ہے چاہے دور ہى جانا پڑے، اور اسے دوسرے قارئ پر فضيلت دى جاتى ہے جو اچھا نہ پڑھے اور غلطياں كرتا ہو يا پھر آواز اچھى نہ ہو، اور سوز كے ساتھ نہ پڑھے، يا پھر تيز تيز پڑھے اور نماز ميں اطمنان بھى نہ كرتا ہو، اور قرآت ميں خشوع نہ اختيار كرے چاہے اس كى مسجد قريب ہى ہو " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن جبرين ( 24 / 28 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سائل كا يہ قول كہ كيا مسجد حرام ميں اعتكاف كرنا باقى مساجد سے افضل ہے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: جى ہاں باقى مساجد سے افضل ہے اور اس كے بعد مسجد نبوى ميں اور اس كے بعد مسجد اقصى ميں اعتكاف كرنا باقى مساجد سے اخرى ہے اور اس كے بعد باقى دوسرى مساجد ميں فضيلت كے اعتبار سے افضل ہوگا.
ليكن يہاں ہميں ايك مسئلہ سمجھنا چاہيے كہ: ہميں عبادت كى جگہ اور وقت كى بجائے فى ذاتہ عبادت كا خيال كرنا چاہيے، يعنى عبادت كى جگہ يا وقت كا خيال ركھنے كى بجائے ہميں اس عبادت كے فضائل كا خيال كرنا چاہيے.
دوسرے الفاظ ميں اس طرح كہ اگر كسى انسان كا ان تين مساجد كى بجائے كسى دوسرى مسجد ميں اعتكاف كرنا زيادہ خشوع اور اللہ كى زيادہ عبادت كا باعث ہو تو اس كے ليے اس مسجد ميں اعتكاف كرنا زيادہ افضل ہوگا؛ كيونكہ يہ چيز فى ذاتہ عبادت كى افضليت كى طرف لوٹتا ہے.
اہل علم كا خيال ہے كہ طواف قدوم كرنے والے شخص كا طواف ميں رمل كرنا اس كا كعبہ كے قريب ہونے سے زيادہ بہتر ہے، انہوں نے اس كى علت يہ بيان كى ہے كہ رمضل كى فضيلت فى ذاتہ عبادت كے ساتھ متعلق ہے، اور كعبہ كے قريب ہونا يہ جگہ كى فضيلت سے تعلق ركھتا ہے.
اور فى ذاتہ عبادت كى فضيلت كا خيال كرنا اس كى جگہ كى فضيلت كے خيال كرنے سے زيادہ بہتر ہے، انسان اور خاص كر طالب علم يہ نقطہ ضرور مدنظر ركھے، وہ يہ كہ فى ذاتہ عبادت كى فضيلت كا اس عبادت كى جگہ اور وقت سے زيادہ خيال كرنا چاہيے " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 4 – 5 / 205 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" بلاشك و شبہ تينوں مساجد جن كى طرف جانے كے ليے شد الرحال يعنى سفر كيا جاتا ہے وہاں اعتكاف كرنا افضل ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں، اور نہ ہى اس كا كوئى معارض ہے، ليكن اگر اس پر يہ مرتب ہوتا ہو كہ اس كى اپنى مسجد ميں اسے زيادہ خشوع و خضوع حاصل ہوتا ہو، اور وہ اللہ كى طرف زيادہ متوجہ ہو، اور شور شرابہ سے محفوظ رہے، اور جو اسے ديكھنے ميں اس كے ليے خطرہ ہوں اس سے محفوظ رہے تو يہاں ہم كہيں گے كہ آپ كے ليے اپنى مسجد افضل اور بہتر ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: شرح الكافى ( 4 / 159 ).
ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ: آپ كے دوست نے جو كچھ كيا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں، حالانكہ حرمين كى امامت كے ليے انہيں اختيار كيا جاتا ہے جو اچھى اور بہتر قرآت كرتے ہيں اور اچھى آواز كے مالك ہيں.
رہا مسئلہ كچھ اعتكاف كرنے والوں كا نماز عشاء اور تراويح ادا كرنے كے ليے مسجد نبوى سے باہر جانے كا مسئلہ تو اس شخص كا اعتكاف صحيح نہيں، كيونكہ وہ بغير كسى ضرورت كے مسجد سے باہر نكلا ہے.
اسے چاہيے كہ يا تو وہ مكمل آخرى عشرہ كا اعتكاف مسجد نبوى ميں كرے، اور بغير كسى ضرورت كے باہر نہ نكلے يہى اس كے افضل ہے.
يا پھر وہ جس مسجد ميں نماز ادا كرتا ہے وہيں اعتكاف كرے، تا كہ وہ آخرى عشرۃ كے اعتكاف كا اجروثواب حاصل كر سكے، اور اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتداء و پيروى بھى كرے.
واللہ اعلم .