اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اپنے گھر میں عید میلاد منانے والے افراد کے ساتھ کیسے پیش آئے؟ اُن کی طرف سے عید میلاد النبی کے جشن میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

سوال

سوال: میں عید میلاد النبی کا جشن نہیں مناتا، لیکن گھر کے بقیہ تمام افراد جشن مناتے ہیں، اور انکا میرے بارےمیں کہنا ہے کہ: "میرا اسلام انوکھا اسلام ہے، اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتا" کیا اس بارے میں مجھے کوئی نصیحت کرسکتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

محترم بھائی آپ نے لوگوں میں اس عام رائج شدہ  بدعت کو مسترد کر کے بہت اچھا  کام کیاہے ۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع اور اسلامی تعلیمات  پر ڈٹ جانے کی وجہ سے   طعن زنی پر کان بھی نہ دھریں؛ کیونکہ جتنے بھی رسول  اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث کیے گئے  سب کا انکی اقوام نے مذاق اڑایا ، انہیں نا سمجھ اور بے وقوف(معاذاللہ) بھی کہااور دین کے بارے میں طعنے بھی دیئے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ )
ترجمہ: اسی طرح ان سے پہلے جتنے بھی رسول آئے، سب کے بارے میں انہوں نے کہا: "یہ تو جادو گر یا پاگل ہیں"[الذاريات: 52]
اس لئے آپ کو بھی اگر اس قسم کی باتیں سننی پڑتی ہیں تو  انبیائے کرام آپ کے لئےبہترین نمونہ ہیں، آپ ان  تکالیف پر صبر کریں، اور اللہ کے ہاں ثواب کی امید رکھیں۔

دوم:
 آپ کے لئے نصیحت یہ ہے کہ: جب تک آپ کو ان میں سے کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے والا اور حق کی چاہت رکھنے والا نظر نہ آئے  آپ ان سے بحث اور مناظرہ   سے باز رہیں،  اس کی بجائے آپ ان میں سے اس قسم کے چند لوگوں کو چُن کر عید میلاد  النبی کی حقیقت، اس کا حکم اور اس کی ممانعت پر موجود دلائل انہیں بتلائیں، انہیں یہ بھی واضح کریں کہ  اتباعِ نبوی کی فضیلت کیا ہے، اور بدعات ایجاد کرنے کا نقصان کیا ہے،اس طرح  اگر آپکو کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے والا ملتا ہے تو آپ اسے درج ذیل  انداز سے بات چیت کر سکتے ہیں ، امید ہے آپکے لئے مفید ہوگی:

1- سب سے پہلے ہم  وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں انہوں نے اپنی بات ختم کی تھی کہ انہوں نے کہا : "تمہارا اسلام انوکھا اسلام ہے!" تو ہم انہیں کہتے ہیں کہ:  سب سے پہلے دین اور اسلام کس نے قبول کیا؟ عید میلاد النبی منانے والوں نے یا جنہوں نے عید میلاد نہیں منائی؟
اسکا جواب ہر عقل مند یہی دے گا کہ جنہوں نے عید میلاد نہیں منائی وہی  پہلے دیندار اور مسلمان تھے، چنانچہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  ، تابعین، تبع تابعین، اور انکے بعد سے لیکر مصر میں عہد عبیدی  تک  کسی نے عید میلاد کا جشن نہیں منایا، بلکہ انکے بعد ہی یہ جشن منایا گیا، تو کس کا اسلام انوکھا ہوا؟!

2- ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ زیادہ محبت کرنے والے کون ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا انکے بعد کے آنے والے لوگ؟ یہاں پر بھی عقلمند اور منصف شخص کا جواب یہی ہوگا کہ صحابہ کرام زیادہ محبت کرتے تھے، تو کیا صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی میلاد کا جشن منایا ؟!(نہیں منایا ) تو  کیا میلاد منانےوالے   نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے  صحابہ کی نسبت زیادہ محبت  کر تے ہیں؟

3- ہم یہ پوچھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کا مطلب کیا ہے؟ تو ہر عقلمند شخص کا جواب یہی ہوگا کہ:  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کی جائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقے پر عمل پیرا رہا جائے، چنانچہ اگر  یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقہ کار پر چلتے اور آپکی اتباع کرتے ، تو یہ بھی اسی طرح عمل کرتے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ محبت کرنے والے اور آپکی اتباع کرنے والے صحابہ کرام نے کیا، اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سلف کی اتباع کرنے میں ہی خیر ہے، اور برے لوگوں کی اتباع کرنے  کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کی علامت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"یہ بات ذہن نشین کرلو کہ: جو شخص جس سے محبت کرتا ہے، اسی کو ترجیح دیتا ہے، اور اسی کے نقش قدم پر چلتا ہے، اگر ایسے نہ کرے تو وہ اپنی  محبت میں  سچا  نہیں ہے، بلکہ صرف زبانی جمع خرچ ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے سچی محبت کرنے والے شخص پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں سب سے پہلے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا ، آپکی سنتوں پر عمل، آپ کی باتوں اور آپکے افعال  پر عمل، آپکے احکامات، اور ممنوعات کی پاسداری، آپ کی جانب سے ملنے والے آداب پر تنگی ترشی، آسانی فراوانی، سستی چستی ہر حالت میں  کار بند رہنا ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کےاس  فرمان میں ہے:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
ترجمہ: کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کریگا" [آل عمران : 31]
اسیطرح شریعتِ محمدی کو ترجیح دینا،اسے  نفسانی خواہشات پر  مقدم کرنا، اور  آپکی  چاہت  کے مطابق عمل کرنا آپ سے محبت کی دلیل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
ترجمہ: جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم ہیں یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں۔ اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے۔ اس کی کوئی حاجت اپنے دلوں میں نہیں پاتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنی جگہ ضرورت مند ہوتے ہیں ۔[الحشر : 9]

اور رضائے الہی کی خاطر  لوگوں کی ناراضگی مول لینا آپ سے سچی محبت کی علامت ہے ۔۔۔، چنانچہ  جو شخص ان صفات سے متصف ہو وہی اللہ ، اور اس کے رسول سے کامل محبت کرتا ہے، اور جو  کچھ امور میں مخالفت کرے تو اسکی محبت ناقص ہے،  اگرچہ وہ محبت کے دائرے میں ہے۔
" الشفا بتعريف حقوق المصطفى " ( 2 / 24 ، 25 )

4- اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ پیدائش پر غور و فکر کرتے ہیں، کیا اس بارے میں کوئی ثبوت ہے؟ پھر اس  کے بعد ہم دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ کیا آپکی وفات کا دن ثابت ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب باشعور اور منصف شخص یہی دے گا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ ولادت ثابت نہیں ہے، لیکن یقینی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کا دن ثابت ہے۔
اور جب ہم کتب سیرتِ نبویہ  میں غور کریں تو ہمیں  سیرت نگار آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ پیدائش  درج ذیل مختلف  اقوال  بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں:

1- بروز سوموار، 2 ربیع الاول

2- آٹھ ربیع الاول

3- 10 ربیع الاول

4- 12 ربیع الاول

5- جبکہ زبیر بن بکار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپکی پیدائش رمضان  المبارک میں ہوئی۔

  اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش کے دن  پر کوئی حکم مرتب ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے ضرور پوچھتے،  یا کم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خود ہی انہیں بتلا دیتے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں  ہوا۔

جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بارے میں دیکھیں تو  سب اس بات پر متفق ہیں کہ 11 سن ہجری  کی ابتدا میں  12 ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی۔

اب ذرا غور کریں کہ بدعتی لوگ کس دن جشن مناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ  یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے دن جشن مناتے ہیں، آپکی پیدائش کے دن نہیں! خاندانِ عبیدی - جنہوں نے اپنا نسب نامہ تبدیل کر کے اپنے آپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہوئے"فاطمی" کہلوایا-  جو کہ فرقہِ باطنیہ   سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے  اس بدعت  کا آغاز کیا ، اور بدعتی لوگوں نے بھی بڑی آسانی سے اسے قبول کر لیا، حالانکہ عبیدی لوگ زندیق ، ملحد تھے، ان کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے دن جشن منانا تھا، اور اس کیلئے انہوں نے عید میلاد کا ڈھونگ رچایا، اور اسی لیے تقریبات منعقد کیں،  دراصل ان لوگوں کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات پر خوشی مناناتھا، جسے انہوں نے سادہ مسلمانوں کو چکما دے  کر پور اکیا کہ جو بھی ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرےگا  وہ حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محب ہو گا!، چنانچہ اس انداز سے وہ اپنے مکروہ مقاصد میں کامیاب ہوگئے، اور ساتھ میں انہیں یہ بھی کامیابی ملی کہ "محبت" کا معنی ہی تبدیل کر کے رکھ دیں، اور "نبی سے محبت" کو صرف  عید میلاد پر مخصوص قصیدے پڑھنے، کھانے کی سبیلیں لگانے، مٹھائیوں کی تقسیم، ناچ گانے کی محفلوں کا انعقاد، مرد و زن کا مخلوط ماحول، آلات موسیقی، بے پردگی، اور بے ہودگی میں محصور کر  دیں، مزید برآں بدعتی وسیلے ، اور ان مجالس میں کہے جانے والے شرکیہ کلمات  وغیرہ کا رواج  اس کے علاوہ  ہیں۔

ہماری ویب سائٹ پر  اس بدعت  کی تردید میں متعدد جوابات موجود ہیں چنانچہ آپ : (10070)، (13810)، اور (70317) کا مطالعہ کریں۔

ساتھ میں اس بدعت کے رد میں شیخ صالح الفوزان کی کتاب   " حكم الاحتفال بالمولد النبوي " درج ذیل لنک سے حاصل کریں۔

سوم:

محترم سائل بھائی! آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کیلئے ڈٹ جائیں، مخالفین کی تعداد  زیادہ دیکھ کر آپ گھبرانا مت، ہم آپ کو مزید علم حاصل کرنے ، اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی نصیحت کرتے ہیں، اور اس قسم کے اعمال کو بنیاد بنا کر آپ  اپنے اہل خانہ سے قطع تعلقی مت کریں، کیونکہ وہ کچھ ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جو انہیں اس کام کو جائز بتلاتے ہیں، بلکہ اسے مستحب [!]قرار  دیتے ہیں، چنانچہ آپ انہیں اس کام  سےروکتے ہوئے نرم لہجہ اختیار کریں، کوشش کریں کہ میٹھے بول، عمدہ کردار، حسن اخلاق  سےپیش آئیں، روز مرہ کے امور ہوں یا عبادت سے متعلق انہیں اپنے اندر اتباع نبوی کے اثرات باور کروائیں، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکو نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب