الحمد للہ.
اول:
مرد و عورت كے مابين اختلاط حرام ہے؛ اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 1200 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
آپ پر واجب ہے كہ آپ نے جو كچھ كيا ہے اس پر اللہ سبحانہ و تعالى سے توبہ و استفغار كريں، اور يہ عزم كريں كے آئندہ ايسا نہيں كرينگى.
دوم:
عورت كے ليے اپنى دوسرى مسلمان بہن كى طلاق كے ليے كوشش كرنا حرام ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى كا فرمان ہے:
" اور نہ ہى كوئى عورت اپنى مسلمان بہن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ وہ اس كے برتن كو الٹا كر اس ميں جو كچھ ہے بہا دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2140 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).
اس ليے خاوند كو طلاق دينے پر ابھارنا جائز نہيں، اور نہ ہى اسے دھوكہ ميں ڈالے جائے كہ وہ اپنى بيوى كو طلاق دے دے.
سوم:
اور اگر خاوند كى جانب سے شادى كى رغبت ہو اور آپ نے اس كى بيوى كى عليحدگى ميں كوئى كوشش نہيں كى تو آپ كے ليے يہ رشتہ قبول كرنا جائز ہے، ليكن ہم آپ كو درج ذيل امور كى نصيحت كرتے ہيں:
اول:
اس خاوند كے بارہ ميں يہ نہيں كہا جا سكتا كہ وہ آپ كے علاوہ كسى اور كو بھى پسند نہيں كريگا، اور آپ كے ساتھ شادى كر كے كسى دوسرى عورت كو اختيار نہيں كريگا، جيسا كہ اس نے اپنى بيوى كے ساتھ كيا ہے.
دوم:
آپ كا اس سے شادى كرنے كو قبول كرنے ميں اس كى بيوى كے دل ميں آپ كے ليے بغض و عداوت اور دشمنى پيدا كرنے كا باعث بنےگا، اس ليے آپ اس كے شر و ا ذيت سے بچ نہيں سكيں گى.
سوم:
آپ نے بيان كيا ہے كہ وہ بنك ملازم ہے، ہو سكتا ہے وہ ملازمت چھوڑ دے جيسا كہ اس گمان و خيال ہے، ليكن يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ يہ ملازمت نہ چھوڑے.
ہمارى رائے تو يہى ہے، اور اگر سوچ و بچار كے بعد آپ اس سے شادى كرنا قبول كرتى ہيں تو آپ اللہ سے استخارہ كريں اور انتظار كريں كہ وہ كوئى اور ملازمت اختيار كر لے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو خير و بھلائى اور كاميابى و راہنمائى نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .