الحمد للہ.
اول:
مسلمان كے شايان شان نہيں كہ وہ اپنا وقت ايسے كاموں ميں ضائع كرے جس ميں كوئى فائدہ نہ ہون، ليكن اگر يہ وقت معصيت و نافرمانى اور حرام ميں ضائع كيا جائے تو پھر كيا ہو گا.
انسان كے وقت ميں سے جو ايك روز گزرتا ہے وہ اس كى عمر كا ايك حصہ ہے، اس ليے اسے چاہيے كہ وہ اسے اپنے پروردگار كا قرب حاصل كرنے والے كاموں ميں مشغول رہ كر وقت گزارے، اور اسے ہر حرام يا فساد كے كام ميں وقت ضائع كرنے سے اجتناب و پرہيز كرنا چاہيے.
سوال كرنے والے بھائى نے جس پروگرام كا ذكر كيا ہے وہ تو بہت ہى بےوقوفى والا پروگرام ہے جو مسلمان كو نہيں ديكھناچاہيے، اس پروگرام كے نام كا معنى " نصيب كا پہيہ " ہے، اس پروگرام ميں عورتيں تقريبا بےلباس ہو كر آتى ہيں، اور اس ميں عشق كرنے والے نوجوان لڑكے لڑكيوں كو دعوت دى جاتى ہے، اور مقابلہ ميں شريك ہونے والا بہت سارا مال اكٹھا كر ليتا ہے، ليكن جب پہيہ گھومتا ہے اور ديواليہ كے كلمہ پر آ كر رك جائے تو اس كو سارا نقصان ہو جاتا ہے.
تو پھر اس پروگرام كو ديكھنے والا كسر طرح برائى كو روك سكتا ہے جسے وہ ديكھ رہا ہے، جس ميں بےلباسى اور قمار بازى شامل ہے ؟
دوم:
مسلمان شخص كے ليے اس كمپنى كا سامان خريد كر اس كے انعامى مقابلہ ميں شريك ہونے ميں كوئى مانع نہيں ليكن اس كى كچھ شروط ہيں:
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كمپنياں ـ اس وقت ـ اپنا مال خريدنے والوں كو انعامات ديتى ہيں، تو ہم كہتے ہيں: جب دو شرطيں پائى جائيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں:
پہلى شرط:
قيمت ـ يعنى سامان كى قيمت ـ اس كى حقيقى قيمت ہو، يعنى انعام كى بنا پر اس كى قيمت ميں اضافہ نہ كيا گيا ہو، اگر انعام كى وجہ سے قيمت بڑھا دى گئى ہو تو يہ قمار بازى اور جوا ہے اور حلال نہيں.
دوسرى شرط:
انسان انعام حاصل كرنے كے ليے سامان نہ خريدے، اگر اس نے صرف انعام حاصل كرنے كى غرض سے سامان خريدا نہ كہ اس كى ضرورت كى بنا پر تو يہ مال ضائع كرنے كے مترادف ہو گا، ہم نے سنا ہے كہ بعض لوگ دودھ يا لسى كا ڈبہ خريدتے ہيں، انہيں اس كى ضرورت تو نہيں ہوتى ليكن وہ اس ليے خريدتے ہيں كہ ہو سكتا ہے اسے انعام مل جائے، تو آپ ديكھتے ہيں كہ اسے بازار يا پھر گھر كے ايك كونے ميں انڈيل ديتا ہے، تو يہ جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں مال ضائع ہوتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مال ضائع كرنے سے منع فرمايا ہے.
ديكھيں: اسئلۃ الباب المفتوح نمبر ( 1162 ).
واللہ اعلم .