جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اگر كسى كا ماضى خراب ہو اور اس نے توبہ كر لى تو كيا رشتہ قبول كر ليا جائے ؟

125886

تاریخ اشاعت : 19-09-2010

مشاہدات : 4374

سوال

ميرے ليے ايك شخص كا رشتہ آيا جو پہلے شادى شدہ ہے اور اس كى ايك بيٹى بھى ہے، مجھے اس كى شادى پر اعتراض نہيں، ليكن اس نے وضاحت كى ہے كہ اس نے اس غير ملكى عورت سے شادى اس ليے كى تا كہ اسے فوج سے نكال ديا جائے كيونكہ فوجى آفيسر حضرات كے ليے كسى غير ملكى عورت سے شادى كرنا منع ہے، اور بطور سزا فوج سے نكال ديا جاتا ہے.
اس شخص نے ميرے گھر والوں كو بتايا كہ گرميوں كى چھٹيوں ميں اس كا ايك روسى لڑكى سے تعارف ہوا تو اس نے اس لڑكى سے صرف اس مقصد كے ليے شادى كى كہ فوج سے نكال ديا جاؤں اس شادى كے نتيجہ ميں ايك بچى بھى پيدا ہوئى، ليكن روسى ماں نے بچى اپنے پاس ركھ لى اور اس شخص كى كلام كے مطابق وہ بچى كو لے كر اپنے ملك چلى گئى ہے اب وہ بچى پانچ برس كى ہو چكى ہے ليكن وہ اس سے رابطہ نہيں كر سكا.
ميرا سوال يہ ہے كہ: اس نے جو كچھ كيا اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
اور شريعت اسلاميہ اس كے متعلق كيا رائے ركھتى ہے ؟
ايك بار پھر ميں يہى كہتى ہوں كہ ميرا پہلى شادى پر كوئى اعتراض نہيں اور نہ ہى مجھے اس عورت كى شہريت پر كوئى اعتراض ہے ليكن اس نے جس مقصد سے شادى كى تھى مجھے وہ پريشان كر رہا ہے.
كيا ميں اس شخص پر اعتماد كر لوں يا پھر اس سے كس چيز كى توقع ركھوں كہ اس نے فوج سے نكلنے كے مقصد كو سامنے ركھ كر شادى كر كے ايك گھر بنانے جيسے معاملہ كو بہت ہى آسان سمجھا حالانكہ اس كے گھر والے بھى اس پر موافق نہ تھے ؟
اور جب وہ اپنے خون اور بچى كو ايك غير مسلم ماں كے ساتھ چھوڑ سكتا ہے جو اس سے دور رہ كر غير اسلامى تربيت پا رہى ہے تو پھر اگر ميں اس شخص سے شادى پر راضى ہو جاتى ہوں توم يرے ليے كيا كچھ ہونا ممكن نہيں ؟
وہ كہتا ہے كہ اپنے فعل پر نادم ہوں ليكن آپ بتائيں كہ اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
ميں كيسے تسليم كر لوں كہ وہ اپنى بات ميں سچا ہے، كيونكہ ہر انسان غلطى كر سكتا ہے، ليكن ميں حيران و پريشان ہوں الحمد للہ ميں نے استخارہ بھى كيا ہے ميں مطمئن ہوں كہ كسى كى غلطى كى بنا پر اس كى ندامت كے بعد اس پر غلط ہونے كا حكم لگايا صحيح نہيں.
يہ شخص نمازيں بھى ترك كرتا تھا، اور شراب نوشى بھى كرتا تھا، ليكن اب وہ كہتا ہے كہ يہ مرحلہ ختم ہو جاتا ہے بالكل اسى طرح جيسے كہا جاتا ہے كہ يہ جوانى كا طيش تھا، وہ اپنے كيے پر نادم ہے، اور بالفعل اس رمضان المبارك ميں نماز تراويح كا خيال ركھتا رہا اور قيام الليل كے ساتھ ساتھ قرآن مجيد بھى ختم كيا، اور اسى طرح كئى ماہ قبل عمرہ بھى ادا كرنے گيا اور اب حج كرنے كا ارادہ ركھتا ہے.
يہ سب كچھ اس كى دليل ہے كہ وہ اپنا ماضى بھولنا چاہتا ہے، اور ايك نئى زندگى شروع كرنا چاہتا ہے، ليكن ميرے خاندان اور گھر والوں ميں سے كچھ تو رائے ركھتے ہيں كہ اسے ايك موقع اور فرصت دينى چاہيے، كيونكہ ہر انسان اپنى زندگى ميں غلطى كر سكتا ہے اور اس كے ليے نئى زندگى شروع كرنے ميں كوئى مانع نہيں.
ليكن كچھ خاندان اس رشتہ كو بڑى شدت كے ساتھ رد كرتے ہيں ان كا كہنا ہے كہ اگر وہ اپنى بيٹى كو اپنے سے دور كسى دوسرے دين ميں پرورش پانے اور تربيت حاصل كرنے كے ليے چھوڑ سكتا ہے، اور اس نے اسے واپس لانے كى كوئى كوشش نہيں كى، خاص كر جب بيٹى روس ميں پيدا ہوئى ہے اور اس كى ماں نے اس كے باپ كا نام بھى نہيں ديا، چاہے سركارى طور پروہ باپ كى طرف منسوب نہيں، ليكن اللہ كے ہاں تو وہ اس كى بيٹى ہے اور اس شخص كو اس كے بارہ ميں جواب دينا ہے.
اسى طرح وہ مجھے يہ بھى كہتے ہيں كہ اگر اللہ نے مجھے اولاد دى تو ميں اس غير مسلم لڑكى كو اپنى اولاد كى بہن كيسے تسليم كرونگى ؟
اور ميں اسے كيسے قبول كر سكتى ہوں جسے اپنى عزت كا بھى خيال نہيں، ميں اب بھى استخارہ كر رہى ہوں مجھے كچھ سجھائى نہيں دے رہا كہ كيا كروں، آيا ميں اس شخص كے دين پر راضى ہو جاؤں، يا كہ جيسا كہ ميرے كچھ گھر والے كہتے ہيں كہ اس كا كوئى دين نہيں كيونكہ اس نے اپنى بيٹى اور عزت چھوڑ دى ہے ؟
اور اگر وہ نئى زندگى شروع كرنا چاہتا ہے جو اللہ كے تقوى پر مبنى ہو تو كيا اس كا ماضى اس كے ليے ايك سياہ دھبہ بن جائيگى حالانكہ وہ ايك اچھے خاندان سے تعلق ركھتا ہے ؟
برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں كوئى نصيحت كريں اور راہنمائى ديں ميں محسوس كرتى ہوں كہ ميں ضائع ہو رہى ہوں اور معاملات كو كنٹرول كرنے اور اس پر حكم لگانے كى استطاعت نہيں ركھتى.
ليكن ميں يہ بھى سوچتى ہوں كہ ميں ايسا نہيں كر سكتى اور يہ رسك ہے، ميں اپنى زندگى اللہ كے تقوى پر قائم كرنا چاہتى ہوں، جس ميں ماضى كا كوئى گند شامل نہ ہو، اللہ وحدہ لاشريك ہى جانتا ہے كہ يہ شخص ميرے ليے مناسب ہى يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو يہ شخص جس كا رشتہ آيا ہے اس وقت دين و اخلاق والا ہے، تو اس رشتہ سے انكار نہيں كرنا چاہيے، اور پھر صرف اس ليے رشتہ نہ كيا جائے كہ اس شخص كا ماضى گناہوں سے اٹا ہوا تھا، حالانكہ وہ ان گناہوں نے توبہ كر چكا ہے، اور اپنے ماضى پر نادم ہے.

اس طرح كے شكوك و شبہات پيدا كرنے، اور برا گمان كرنے كى كوئى ضرورت نہيں ہے، كتنے ہى گنہگاروں كو اللہ سبحانہ و تعالى نے ہدايت دى اور اسے توفيق دے كر اسے عزت سے نوازا اور خير و بھلائى كے راستے آسان كر دے.

حالانكہ وہ گندگى و شر كى اتھاہ گھرائيوں ميں گرا ہوا تھا، بيٹى كو حاصل نہ كر سكنے كى بنا پر اسے چھوڑنے كا يہ معنى نہيں كہ اللہ اسے ہدايت دے دے تو وہ اپنى بيوى اور اولاد كو بھى چھوڑ دےگا.

اس ليے اس مسئلہ ميں ديكھا يہ جائيگا كہ اب اور اس وقت اس كى حالت كيا ہے، اگر تو وہ نيك و صالح ہے تو پھر رشتہ سے انكار نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ يہ چيز حديث كے خلاف ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس سے ( اپنى لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فتنہ بپا ہوجائيگا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ليكن اس كے نيك و صالح ہونے كے ليے اس كا خود كہنا كہ وہ صالح اور نيك ہے اور نماز روزہ كى پابندى كرتا ہے، يا عمرہ كيا اور حج كرنا چاہتا ہے، بلكہ اس كے ليے اس كے دوست و احباب اور پڑوسيوں اور مسجد كے امام وغيرہ سے اس كے متعلق دريافت كيا جائيگا، جو اس كے معاملات كا علم ركھتے ہيں.

آپ كے گھر والوں ميں سے اس رشتہ پر اعتراض كرنے والوں كو كم از كم اس كے بارہ ميں شك كرنے كا حق حاصل ہے اس ليے اس رشتہ كو قبول كرنے ميں جلدبازى سے كام نہيں لينا چاہيے، بلكہ اس كى استقامت اور صالح ہونا واضح ہو جائے تو ٹھيك، اور اگر آپ كو اس كے متعلق كوئى شك ہو يا تردد ہو جائے تو پھر بچنا اور اجتناب كرنا ہى بہتر ہے.

مزيد تفصيلات كے ليے سوال نمبر ( 5202 ) اور ( 105728 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں، ان ميں خاوند ميں پائى جانى ضرورى صفات اور منگيتر كے حالات معلوم كرنے كے وسائل بيان كيے گئے ہيں.

اسى طرح سوال نمبر ( 97240 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں، اس ميں ہم نے خراب ماضى والے شخص كے رشتہ كو قبول كرنے كے بارہ ميں چند ايك نصيحتيں اور راہنمائى بيان كى ہيں اس ميں بيان كيا گيا ہے كہ:

" ليكن آپ كے اختيار كا حكم اس طرح كہ آپ كے ليے اس كا دين اور اخلاق واضح ہوا ہے اس كے مطابق حكم ہوگا، كيونكہ اس نے آپ كا خاوند بننا ہے، آيا اس ميں يہ صلاحيت ہے كہ وہ آپ كے دين اور عزت كى حفاظت كر سكےگا.

آيا آپ اس كے ساتھ رہتے ہوئے اپنى عزت اور اپنے دين كو محفوظ ركھ سكيں گى، يہ اس كے مطابق ہى ہے جو ہم آپ كے ليے پہلے بيان كر چكے ہيں، يہ نہيں كہ اللہ تعالى اسے آپ كے ہاتھوں ہدايت دے، كيونكہ مرد كى اپنى بيوى پر تاثير اور اثراندازى زيادہ ہوتى ہے، ليكن عورت بہت كم اپنے خاوند پر اثرانداز ہوتى ہے.

اور خاص كر ہدايت و ا ستقامت كے اعتبار سے، اگر آپ اس كى بہت حالت پر مطمئن نہيں اور اس كى سچى توبہ سے مطئمن نہيں تو پھر اس حالت ميں ہم آپ كو اسے اپنا شريك حيات بنانے كى نصيحت نہيں كرتے.

آپ كے گھر والوں كو اس آدمى كے حالات جاننے اور معلوم كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور ان معلومات كى بنا پر آپ اپنا كوئى آخرى فيصلہ كريں، اور اس كے ساتھ ساتھ استخارہ كرنا مت بھوليں، كہ اللہ آپ كو صحيح راہ كى توفيق دے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب