الحمد للہ.
اول:
اس لڑكى كو ان حرام تعلقات سے توبہ و استغفار كرتے ہوئے اس نوجوان سے ہر قسم كے تعلقات ختم كر دينے چاہيں، اس لڑكى اور اس كے گھر والوں كو ايسا نوجوان بطور خاوند قبول نہيں كرنا چاہيے جو نشہ آور اشياء استعمال كرتا اور خود كشى جيسا اقدام كرنے سے بھى گريز نہيں كرتا، يہ سب فسق و فجور اور دينى قلت و كمزورى كى دليل ہے، اگر وہ نشہ چھوڑنے ميں سچا ہوتا تو اب تك نشہ چھوڑ چكا ہوتا.
اسى طرح اس لڑكى كو چاہيے كہ وہ اس نوجوان كى خود كشى يا اپنے آپ كو اذيت دينے كے معاملہ كى طرف التفات مت كرے، كيونكہ يہ معاملہ اس سے متعلق نہيں، اور نہ ہى اس كا اس پر محاسبہ ہوگا.
دوم:
جب لڑكى كے ليے كسي ايسے شخص كا رشتہ آئے جو دينى اور اخلاق طور پر صحيح ہو تو يہ رشتہ قبول كرنا چاہيے كيونكہ حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس سے ( اپنى لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
اس لڑكى كو چاہيے كہ وہ اپنے گھر والوں كو بتائے كہ نوجوان نے اسے دھمكى دى ہے تا كہ گھر والے اپنى لڑكى كو اذيت و تكليف سے محفوظ ركھ سكيں، ہم لڑكى كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں ميں سے ايسے شخص كو اختيار كرے جو شدت و قوت كا مظہر ہو، وہ نوجوان كے خاندان والوں كو بلا كر انہيں بتا ديں كہ اگر نوجوان نے ان كى لڑكى كو كوئى تكليف دى تو پھر انجام اچھا نہيں ہوگا.
كيونكہ ايسے افراد كے ليے تو اس طرح كے افراد ہى ہونا چاہيں جو اسے سبق سكھائے اور انہيں ايسا كام كرنے سے روك سكيں، اور لڑكى كے ليے يہ بھى ممكن ہے كہ اگر آپ كے ملك ميں ممكن ہو سكے تو وہ پوليس وغيرہ ميں رپورٹ كرے كہ فلاں شخص اسے اذيت و تكليف دينے كى دھمكى ديتا ہے؛ تا كہ وہ اس كے خلاف كوئى مناسب اقدام كريں، يا پھر كم از كم وہ اس نوجوان سے اقرار نامہ لے كہ وہ لڑكى كو كوئى تكليف نہيں دےگا.
ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ہم اور سب مسلمانوں سے ظاہرى و باطنى فتنوں اور آزمائش كو دور كرے.
واللہ اعلم .