الحمد للہ.
فقھاء كرام كا اختلاف ہے كہ اگر ايك ہى بار دو يا تين طلاق دى جائيں تو وہ كتنى طلاق شمار ہونگى، راجح يہى ہے كہ وہ ايك ہى طلاق شمار ہوگى، چاہے اس نے ايك كلمہ ميں طلاق دى ہو يعنى كہا ہو: تجھے تين طلاق " يا پھر اس نے عليحدہ عليحدہ طلاق كے الفاظ بولے ہوں يعنى تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق، يا پھر جيسا كہ سوال ميں ہے: اسے دوسرى اور تيسرى طلاق، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے، اور شيخ سعدى رحمہ اللہ اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار ديا ہے.
انہوں نے صحيح مسلم كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت اور عمر فاروق رضى اللہ تعالى عنہ كے دور خلافت ميں دو برس تك تين طلاقوں كو ايك ہى شمار كيا جاتا رہا.
عمر فاروق رضى اللہ تعالى عنہ فرمانے لگے: لوگ طلاق ميں معاملہ ميں جلدى بازى كا مظاہرہ كر رہے ہيں جس ميں ان كے ليے مہلت و انتظار تھا، اگر ہم ان پر اسے لاگو كرديں تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے ان پر لاگو كر ديا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1472 ).
ان علماء رحمہم اللہ نے اختيار كيا ہے كہ طلاق رجوع يا پھر عقد نكاح كے بعد واقع ہوتى ہے، اس ليے جس نے بھى اپنى بيوى كو ايك دن طلاق دى اور پھر پہلى طلاق كى عدت ميں ہى دوبارہ طلاق دى تو دوسرى طلاق واقع نہيں ہوگى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان سب مسائل ميں راجح قول يہى ہے كہ: تين طلاق بالكل نہيں ہيں، ليكن تين طلاق اس وقت ہونگى يا تو ان كے مابين رجوع يا پھر عقد ہو، وگرنہ تين طلاق واقع نہيں ہونگى، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا اختيار يہى ہے اور صحيح بھى يہى ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 94 ).
اس بنا پر جب خاوند نے دوسرى اور تيسرى طلاق پہلى طلاق كى عدت ميں دى جس ميں اس نے اپنى بيوى سے رجوع نہيں كيا تو پہلى طلاق ہى واقع ہوگى دوسرى اور تيسرى طلاق واقع نہيں ہوئى.
اور خاوند كو حق حاصل تھا كہ وہ اپنى بيوى سے عدت كے اندر اندر رجوع كر لے، ليكن وضع حمل كى وجہ سے عدت گزر چكى ہے اس ليے اب وہ نئے مہراور ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں نيا نكاح كر سكتا ہے، اور پہلى طلاق شمار ہو گى اور نيا نكاح كر لينے كى صورت ميں بھى اس كے ليے باقى دو طلاقوں كا حق رہےگا.
واللہ اعلم .