جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

اپنى بہن كو دودھ پلايا اور اس كے اپنے خاوند كى اولاد ہے تو كيا يہ بہن ان بچوں پر حرام ہو جائيگى ؟

126884

تاریخ اشاعت : 23-03-2009

مشاہدات : 5754

سوال

ايك عورت نے ايك شخص سے شادى كى جس كے دو بچے تھے، اور اس عورت نے اپنى بہن كو دودھ پلايا تو كيا اس كے خاوند كى اولاد اس كى بہن كے بھائى بن جائيگے ؟
يہ علم ميں رہے كہ اس عورت نے رضعات كى تعداد كى وضاعت نہيں ليكن وہ يہ كہتى ہے كہ بہن سے سير ہو كر دودھ پيا تھا، اور يہ بھى علم ميں ركھيں كہ بہن نے اس كے خاوند ( يعنى سالى نے بہنوئى كے پہلے ) بيٹے كے ساتھ شادى كر لى ہے اور ان كى اولاد بھى ہو چكى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال سے ہميں يہ ظاہر ہوتا ہے كہ:

عورت نے ايك شخص كے ساتھ شادى كى جس كے پہلے دو بيٹے تھے، تو اس طرح يہ اس عورت كے اپنے بيٹے نہ ہوئے، اور نہ ہى اس نے انہيں دودھ پلايا ہے، تو اس طرح يہ اس كے رضاعى بيٹے بھى نہيں بنتے.

اس بنا پر اگر تو اس عورت نے اس شخص سے شادى كے بعد اپنى بہن كو دودھ پلايا اور پانچ رضاعت يا اس سے زيادہ تھيں تو اس طرح وہ اپنى بہن كى رضاعى ماں ہوئى اور اس كا بہنوئى اس كى بہن كا رضاعى باپ بن گيا.

اس بنا پر اس شخص كے وہ دونوں بيٹے اس لڑكى جس نے بہن كا دودھ پيا تھا كے رضاعى بھائى ہوئے كيونكہ وہ سب ايك ہى باپ ميں ( رضاعت كے اعتبار سے ) اكٹھے ہو جاتے ہيں، اور يہ بيوى كى بہن اس شخص ( يعنى بہنوئى ) كے خاندان ميں داخل ہو گئى، تو اس شخص كى بيوى اس بہن كى ماں ہوئى اور وہ اس كا باپ ہوا، اور اس كے دونوں بيٹے اس كے بھائى ہوئے اور اس كے والدين اس كے دادا دادى اور اس شخص كے بھائى اس كے چچا ہوئے يعنى سارا خاندان اسى طرح.

اور اس لڑكى كا حكم نكاح ميں وہى حكم ہو گا جو اس كى اولاد كا حكم ہے، اور درج ذيل حديث كا معنى بھى يہى ہے:

" رضاعت سے وہى كچھ حرام ہوتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے "

اس بنا پر بيوى كى بہن ـ جو رضاعت ميں بہنوئى كى بيٹى بن چكى ہے ـ كے ليے اپنے بہنوئى كے بيٹوں سے شادى كرنا حرام ہو گا؛ كيونكہ وہ اس كے رضاعى بھائى بن چكے ہيں.

دوم:

مندرجہ بالا حكم دو حالتوں ميں ہے:

پہلى حالت:

اگر يہ رضاعت دودھ پينے كى حالت ميں ہو يعنى بچے كے پہلے دو برس، اگر اس نے دو برس كى عمر كے بعد بہن كو دودھ پلايا ہے تو اس سے حرمت ثابت نہيں ہوتى.

دوسرى حالت:

اس حالت ميں كہ رضاعت پانج يا زيادہ بار ہو، ليكن اگر يقينى طور پر اس سے كم رضاعت ہو يا پھر عدد ميں شك ہو كہ آيا وہ پانچ بار تك پہنچى تھى يا نہيں تو اس سے حرمت ثابت نہيں ہو گى، اور اس شخص كے بيٹے اس كے رضاعى بھائى نہيں ہونگے، اور نہ ہى اس كى بہن اصل ميں اس كى رضاعى ماں بنے گى.

ان دونوں حالتوں كے تفصيلى دلائل آپ سوال نمبر ( 804 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.

يہاں ہم حرمت كے ثبوت كے ليے ايك اہم شرط كا اضافہ كرنا چاہيں گے ـ جس كا اشارہ كيا جا چكا ہے ـ وہ يہ كہ اگر بہن نے اپنى بہن كو موجودہ خاوند كا دودھ پلايا ہو جس كے وہ بيٹے ہيں تو پھر حرمت ثابت ہو گى، نہ كہ پہلے خاوند كى موجودگى ميں، كيونكہ اس اعتبار سے سوال واضح نہ تھا.

اگر تو اس عورت كا دودھ اصل ميں پہلے خاوند كى وجہ سے موجود تھا تو پھر دوسرے خاوند كے بيٹے اس دودھ پينے والى بہن كے رضاعى بھائى نہيں ہونگے؛ كيونكہ ان كے درميان ربط كا كوئى تعلق و علاقہ نہيں پايا جاتا.

اس شرط كى مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 45620 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور اس سوال كرنے والے سائل كو چاہيے كہ وہ حقيقت حال كى وضاحت كرے، اور رضاعت كى تعداد كا بھى يقين كرے، اور پھر اس معاملہ كو شرعى عدالت ميں پيش كرے تا كہ اس مسئلہ كو حل كيا جائے، اور حكم وہى ہو گا جو شريعت كے مناسب ہو.

ہو سكتا ہے حالت كى وضاحت كرنے كے نتيجہ ميں اس بہن اور اس خاوند كے بيٹے كے درميان نكاح فسخ كرنا پڑے، ليكن اگر يہ ثابت ہو جائے كہ ان كے درميان كوئى حرمت نہيں تو يہ نكاح برقرار بھى رہ سكتا ہے، اس ليے سوال كرنے والے اس مسئلہ ميں جلدى كرنى چاہيے اور دير مت كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب