جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

آسٹريليا ميں مقيم نوجوان كا رشتہ

126914

تاریخ اشاعت : 25-07-2010

مشاہدات : 7071

سوال

كيا مسلمان لڑكى كے ليے آسٹريليا ميں مقيم شخص سے شاى كرنا جائز ہے، وہ وہى پيدا ہوا ہے اور اب پى ايچ ڈى كى تعليم مكمل كر رہا ہے، اس نوجوان كا اس لڑكى سے رشتہ طے ہو چكا ہے تقريبا ايك برس بعد وہ شادى كرينگے؛ كيا لڑكى كے ليے وہاں جا كر اس كے ساتھ رہنا جائز ہوگا ـ آپ جناب كے ليے واضح ہے كہ اس ملك ميں كيا كچھ قباحتيں موجود ہيں ـ يہ علم ميں رہے كہ لڑكى بھى سب دينى تعليمات كا التزام نہيں كرتى، اور اسى طرح وہ شخص بھى مكمل دينى تعليمات پر عمل نہيں كرتا يا اس سے كم كرتا ہے، برائے مہربانى اگر آپ ہميں اس كے بارہ ميں معلومات فراہم كريں تو بہتر ہے، اور لڑكى كے گھر والوں كو آپ كيا نصيحت كرتے ہيں كيونكہ وہ دينى التزام كرتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

كفريہ ممالك ميں رہائش اختيار كرنے كى كچھ شروط ہيں جن ميں اہم ترين شروط يہ ہيں:

وہاں مقيم شخص دينى طور پر اتنا مضبوط ہو كہ وہ شہوات سے عاجز ہو، اور علم والا ہو كہ شبہات سے محفوظ رہے، اور اپنے دينى شعائر كو اعلانيہ طور پر ادا كرسكتا ہو، اور اپنے اہل و عيال اور اولاد كے متعلق امن و امان ركھتا ہو.

مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 95056 ) اور ( 89709 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

دوم:

يہ بات كسى پر مخفى نہيں كہ لڑكى اپنے ولى كے پاس ايك امانت ہے، ولى كو چاہيے كہ وہ اس كى شادى كسى ايسے شخص كے ساتھ كريں جو اس كے دين اور اس كى عزت كى حفاظت كرنے والا ہو، اور يہ چيز مال و دولت اور مقام و مرتبہ پر مقدم ہونى چاہيے.

كيونكہ جب دين مفقود ہو جائے تو كوئى بھى چيز اس كا عوض نہيں بن سكتى، لڑكى كے ولى كو اس يا اس طرح كے دوسرے نوجوان كے رشتہ پر راضى نہيں ہونا چاہيے، بلكہ انہيں نوجوان كى دينى استقامت اور فسق و فجور اور انحراف كے اسباب سے دور ہونے كا يقين كر لينا چاہيے.

اور وہ اس نوجوان كے سامنے شرط ركھيں كہ وہ اپنى بيوى كو پردہ كرائيگا، اور اسے دينى تعليمات دے كر اس كى تطبيق كرائيگا، اور اگر اختلاف پيدا ہو جائے تو بھى دين اسلام كے مطابق فيصلہ كرائيگا، اور اس ملك ميں رہتے ہوئے مسلمان كيمونٹى كے ساتھ تعلق ركھےگا، كيونكہ جماعت پر اللہ كا ہاتھ ہوتا ہے، اور اكيلى رہنے والى بھيڑ بكرى كو بھيڑيا چير پھاڑ كر كھا جاتا ہے.

اگر لڑكى كے اولياء كو خدشہ ہو كہ وہ وہاں جا كر اپنا دين بھى كھو بيٹھےگى، اور لڑكى كو جاننے كى بنا پر ان كا ظن غالب يہى ہو تو پھر ان كے ليے اس لڑكى كى كسى ايسے شخص كى ساتھ شادى كرنا جائز نہيں جو اسے لے كر كفريہ ممالك ميں جا كر رہے، كيونكہ وہ اپنے ماتحت افراد كے ذمہ دار ہيں، اور وہ ان كى رعايا شمار ہوتى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے گھر والوں كو اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر ايسے فرشتے مقرر ہيں جو شديد و ترش رو ہيں، وہ اللہ سبحانہ و تعالى كى نافرمانى نہيں كرتے، انہيں جو حكم ديا جاتا ہے اسے وہ بجا لاتے ہيں التحريم ( 6 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم سب ذمہ دار ہو، اور سب سے اس كى رعايا كے متعلق باز پرس كى جائيگى، حكمران ذمہ ہے اور وہ اپنى رعايا كے بارہ ميں جوابدہ ہے، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے اس سے اس كى رعايا كے متعلق سوال كيا جائيگا، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 853 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).

سوم:

ہمارى رائے تو يہى ہے اور ہم لڑكى كے گھر والوں كو اس شادى كے متعلق يہى نصيحت كرتے ہيں كہ:

اگر تو اس نوجوان كى يہى نيت ہے كہ وہ اپنے اصلى ملك يا پھر كسى اسلامى ملك منتقل ہو جائيگا تو اس سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اوپر جو نصائح اور تنبيہات كى گئى ہيں اسے متنبہ كرنے كے بعد، اور يہ اطمنان كرنے كے بعد كے وہ شخص اپنى نمازوں كى پابندى كرنے اور دين كا التزام كرتا ہے، تو ظن غالب يہى ہے كہ وہ اپنى بيوى بچوں كى بھى ان غلط اور فساد والے معاشرے ميں برائى سے حفاظت كريگا، جب تك وہاں رہيں كے وہ حفاظت كرتا رہےگا.

ليكن اگر وہ مسلمان ملك واپس آنے كى نيت نہيں رہتا بلكہ اس كى حالت بھى وہى ہے جو ان ممالك ميں بسنے والوں كى ہے اور وہاں دنيا كمانے ميں لگا ہوا ہے، تو پھر ہمارى رائے يہى ہے كہ لڑكى كے گھر والے اپنى بيوى كو دھوكہ ميں مت ڈاليں، اور اس ملك ميں بسنے كے ليے مت بھيجيں.

خاص كر جب كہ سوال ميں بتايا گيا ہے كہ لڑكى ميں عفت و عصمت كى كمى ہے اور لڑكے ميں بھى، تو پھر اس كے بارہ ميں اس پرفتن ملك ميں ہم كيسے مامون رہ سكتے ہيں كہ وہ بھى امن ميں رہے گى اور ہونے والى اولاد بھى، اور وہ اس معاشرے ميں رہتے ہوئے اس معاشرے ميں گھل مل جانے نہ دے گى، اور علمى اور دينى طور پر ان كى حالت پتلى نہيں ہونے دےگى اور ان كے اخلاق ميں خرابى پيدا نہيں ہونے دے گى ؟

اس طالب علم كے ليے ممكن ہے كہ جب وہ اس ملك ميں رہنا چاہتا ہے تو وہ اس ملك ميں رہنے والى مسلمان كيمونٹى كے افراد كو اختيار كرے، كيونكہ ہو سكتا ہے ان كے ليے كسى مسلمان ملك ميں منتقل ہونا ممكن نہ ہو، وہ اس مسلمان كيمونٹى كے افراد ميں سے كوئى بيوى تلاش كر لے جو اس معاشرے ميں رہتے ہوں اور اس طرح وہ اس سے مالوف بھى گى.

اللہ سبحانہ و تعالى سب كو ايسے عمل كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جنہيں وہ پسند كرتا ہے اور جن سے وہ راضى ہوتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب