الحمد للہ.
اگر تو واقعہ ايسا ہى ہے جو بيان كيا گيا ہے تو پھر بيوى پر اس وقت تك غسل نہيں جب تك اسے بھى انزال نہ ہو.
بخارى اور مسلم ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:
" ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يقينا اللہ سبحانہ و تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا، تو كيا اگر عورت كو احتلام ہو جائے تو اس پر بھى غسل كرنا واجب ہو گا ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جب وہ پانى ديكھے تو ( غسل كرے ) "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 130 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 313 ).
چنانچہ يہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غسل واجب ہونے ميں پانى ديكھنے كى قيد لگائى ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اچھل كر نكلنے والى منى مرد و عورت پر غسل واجب كر ديتى ہے، چاہے بيدارى كى حالت ميں نكلى ہو يا نيند كى حالت ميں، عام فقھاء كرام كا قول يہى ہے، امام ترمذى كا قول يہى ہے، اور اس ميں ہميں تو كسى اختلاف كا علم نہيں " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 1 / 127 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے " جب وہ پانى ديكھے " اور " جب پانى پھينكو تو غسل كرو " كہہ كر رؤيت اور پانى پھينكنے پر غسل كو معلق كيا ہے، اس ليے اس كے علاوہ غسل كا حكم ثابت نہيں ہوگا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 1 / 129 ).
مزيد آپ فتح البارى ( 1 / 389 ) اور فتح البارى ابن رجب ( 2 / 51 ) كا بھى مطالعہ كريں.
يہاں ہم خاوند كو ايك تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ يہ حالت شرعى طور پر قابل قبول نہيں ہے كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ اس كے يا اپنے كسى رشتہ دار كے ساتھ اس طرح رہے كہ وہ بيوى سے مناسب طريقہ پر معاشرت و مباشرت نہ كر سكتا ہو، اور نہ تو وہ اپنے اور نہ ہى اپنى بيوى كے راز كو محفوظ ركھ سكتا ہو.
اس ليے ضرورى اور واجب ہے كہ كوئى عليحدہ گھر ديكھا جائے جس ميں وہ اپنے ازدواجى تعلقات صحيح طرح ادا كر سكيں، اور اس كے ليے جتنى بھى جلدى كى جائے بہتر ہے دير نہ كريں.
ابن مفلح رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خاوند پر اس كى بيوى كا نان و نفقہ اور اس كا لباس و رہائش كا انتظام كرنا لازم ہے، اور اسى طرح اس طرح كى عورت كى مصلحت ميں جو كچھ كيا جاتا ہے وہ بھى اچھے طريقہ سے پورا كيا جائے " انتہى
ديكھيں: الفروع ( 10 / 329 ).
واللہ اعلم .