الحمد للہ.
اول:
آپ كے خاوند كا آپ كو كہنا: ہمارے درميان جو تھا وہ ختم جاؤ اپنے ميكے چلى جاؤ " يہ طلاق كنايہ ہے، اور يہ طلاق نيت كے بغير واقع نہيں ہوتى، اگر آپ نيت سے جاہل ہوں يا پھر نيت بھول گئے ہوں تو اصل ميں يہ طلاق واقع نہيں ہوئى.
دوم:
دوسرى اور تيسرى بار آپ كو اپنى بيوى كو طلاق دينے كے متعلق وہى ہے جو آپ كو فتوى دينے والوں نے فتوى ديا ہے.
سوم:
طلاق كے الفاظ استعمال كرنے ميں تساہل اختيار كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، ويسے ہى طلاق كے الفاظ مت كريں كيونكہ اس كے نتيجہ ميں خطرنام انجام سےدوچار ہونا پڑتا ہے، جس كا خاوند اور اس كے اہل و عيال اور اولاد كو نقصان ہو سكتا ہے.
آپ كے سوال سے واضح ہوتا ہے كہ آپ اس عظيم معاملہ سے كھيلتے اور استھزاء كرتے رہے ہيں، حتى كہ ايك دن طلاق دے كر رجوع كرتے اور پھر دوسرے دن طلاق ديتے ہيں، اور يہ اللہ كى حدود سے تجاوز كرنا كہلاتا ہے، جو شخص ايسا كرتا ہے اس پر طلاق شمار كرنى چاہيے جيسا كہ جب لوگ تين طلاق ميں تساہل اختيار كرنے لگے تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے كيا تھا.
واللہ اعلم .