الحمد للہ.
اول:
منگيتر اور خاوند بيوى كے ماضى كے متعلق نہيں پوچھنا چاہيے، بلكہ يہى كافى ہے كہ شادى كے وقت بيوى نيكى و بھلائى ميں معروف اور صالح ہو، اس كے دين اور عفت ميں طعن نہ كيا جائے، رہا مسئلہ كہ ماضى ميں وہ كسى حرام كام كا ارتكاب كرتى رہى ہو، اور پھر اس سے توبہ كر كے نيك و صالح بن چكى ہو، تو اس سے اس كے بارہ ميں سوال كرنا غلط ہے، اور پھر اسے اس ميں جھوٹ بولنے يا طلاق كى طرف دھكيلنے كا باعث بنتا ہے، يا پھر وہ اپنے آپ كو رسوا كرنے اور اللہ كى ستر پوشى كو افشا اور ظاہر كرنے كا باعث بنےگى، اور اگر اس نے اس كے ساتھ سچ بولا تو اس كے سامنے شك و شبہ كى مجال پيدا ہو جائيگى.
اور يہ بہت ہى غلط بات ہے كہ خاوند اور بيوى ايك دوسرے كے سامنے اپنے ماضى ميں جو كچھ ہوا واضح بيان كر ديتے ہيں اور سارا ماضى كھول كر ركھ ديتے ہيں، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كى ستر پوشى كر ركھى تھى، بلكہ انہيں ايسا نہيں كرنا چاہيے، اور اللہ تعالى كى ستر پوشى پر راضى ہوتے ہوئے اللہ كى شكر ادا كرنا چاہيے.
دوم:
بيوى يا منگيتر كو اپنے ماضى ميں جو كچھ ہوا وہ بيان نہيں كرنا چاہيے كيونكہ اللہ نے اس پر پردہ ڈالتے ہوئے ان كى ستر پوشى كر ركھى تھى، بلكہ اس كے ليے سترپوشى كرنا واجب ہے، اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اس گندگى اور برائى سےاجتناب كرو جس سے اللہ نے منع فرمايا ہے، اور اگر كوئى اس ميں مبتلا بھى ہو جائے تو اسے اللہ كى ستر پوشى سے اپنے آپ كو چھپانا چاہيے "
اسے بيہقى نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 663 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور صحيح مسلم ميں ابو ھريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى جس بندے كى دنيا ميں ستر پوشى كرتا ہے تو روز قيامت بھى اس كى ستر پوشى كريگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2590 ).
اور اگر خاوند يا منگيتر اس كے متعلق اصرار كر كے پوچھے تو عورت كو توريہ اختيار كرنا چاہيے، مثلا وہ يہ كہہ سكتى ہے كہ: ميرے اور اس شخص كے مابين كچھ نہيں ہوا.
اور وہ اس سے مراد يہ لے كہ آج يا كل كچھ نہيں ہوا، اس ليے كہ اسے تو سترپوشى كا حكم ہے، اور پھر اسے بتانے اور اس راز كو افشا كرنے ميں كوئى مصلحت اور ضرورت بھى نہيں لہذا اس كے ليے توريہ كرنا مشروع ہے، بلكہ بعض اہل علم نے تو اس وقت جھوٹ بولنا بھى جائز قرار ديا ہے.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 83093 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس بنا پر ہم اميد كرتے ہيں كہ آپ نے جو جھوٹ بولا ہے اس ميں آپ كو كوئى گناہ نہيں، ليكن بہتر يہ تھا كہ آپ توريہ اور كنايہ استعمال كرتيں.
سوم:
جب منگيتر اپنى منگيتر سے يہ الفاظ كہے: اگر تم نے مجھ سے كچھ چھپايا تو شادى كے بعد تم مجھ پر حرام ہوگى، اور پھر لڑكى نے اپنے منگيتر سے كچھ چھپايا تو اسے طلاق نہيں ہوگى اور نہ ہى ظھار ہوگا؛ كيونكہ طلاق اورظھار تو نكاح كے بعد ہوتا ہے، اور منگيتر نے تو يہ كلام عقد نكاح سے قبل كى ہے، اس ليے نہ تو اس كى طلاق واقع ہوگى اور نہ ہى ظھار.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" آپ كو علم ہونا چاہيے كہ طلاق تو نكاح كے بعد ہوتى ہے اس ليے كہ يہ طلاق تو نكاح كو ختم كرنے كا نام ہے، اس ليے نكاح سے قبل طلاق نہيں ہوگى، چنانچہ اگر كوئى شخص كسى عورت سے يہ كہے كہ: اگر ميں نے تم سے شادى كى تو تجھے طلاق اور پھر اس سے شادى كر لى تو اسے طلاق نہيں ہوگى.
يا مرد سے اس كى بيوى نے كہا: ميں نے سنا ہے كہ تم شادى كرنا چاہتے ہو اور مجھے يہ دوسرى شادى پسند نہيں اور بيوى اسے تنگ كرے تو خاونداسے كہے: كيا تم اس پر راضى ہو كہ اگر ميں نے كسى عورت سے شادى كى تو اسے طلاق ؟
تو بيوى كہنے لگى: بس كافى ہے، اور وہ اس پر راضى ہو گئى تو خاوند نے يہ بات كہہ دى، اور شادى نہ كى، ليكن اگر وہ شادى كر لے تو اسے طلاق نہيں ہو گى، كيونكہ نكاح سے قبل طلاق نہيں ہوتى " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 7 ).
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى توبہ قبول فرمائے اور آپ كے حالات كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم .