الحمد للہ.
اول:
جب آدمى كا عورت سے عقد نكاح ہو جائے تو وہ اس كى بيوى بن جاتى ہے، اور اس كے ليے اس عورت سے جماع كے علاوہ باقى سب كچھ كرنا جائز ہے، كيونكہ جماع كرنے كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں پيدا ہو سكتى ہيں، ہو سكتا ہے وہ اس جماع سے حاملہ بھى ہو جائے، اور مقرر كردہ رخصتى كے وقت سے قبل ولادت ہو جائے، تو اس طرح عورت پر تہمت لگے، يا پھر خاوند كى جانب سے اسے طلاق ہو جائے، يا خاوند فوت ہو جائے، تو خيال كيا جائے كہ عورت كنوارى ہے حالانكہ وہ كنوارى نہيں ہے.
اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ رخصتى كے اعلان تك صبر كرے، اور عورت كو بھى چاہيے كہ اگر خاوند جماع كرنا چاہے تو وہ اسے اس سے منع كرے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 111165 ) اور ( 70531 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
خاوند كو چاہيے كہ اس عرصہ ميں جو اختلافات ہوئے وہ ان كى طبعيت كو ديكھے، اور مستقبل ميں ان اختلافات كو ختم كرنے اور ان پر غلبہ كرنے كے امكان كا جائزہ لے، اگر تو واضح ہو كہ ان اختلافات كا علاج كرنا ممكن ہے، تو وہ اپنى اس شادى كو برقرار ركھے، اور سسرال والوں سے بيوى كو سپرد كرنے كا مطالبہ كرے.
اور اگر يہ واضح ہو كہ يہ ايسے امور ہيں جن كے متعلق ظن غالب ہو كہ ان كے ہوتے ہوئے ازدواجى زندگى كو قائم ركھنا مشكل ہے تو پھر خاوند كے ليے بيوى كو طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں، اور وہ اسے پورے حقوق ادا كرے، جو كہ پورا مہر ( مقدم اور مؤخر دونوں ) ہے، اور اگر بيوى اپنى رضامندى كے ساتھ اس ميں كچھ سے دستبردار ہو جاتى ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
سوم:
جب خاوند نكاح كو باقى ركھنے كى رغبت ركھتا ہو لڑكى والے طلاق پر مصر ہوں، تو اس سلسلہ ميں بيوى كى رائے مرجع شمار ہو گى، كيونكہ وہى اس معاملہ والى ہے اور اس نے ہى خاوند كے ساتھ رہنا ہے، اگر تو وہ طلاق نہيں چاہتى تو خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كو اپنے پاس ركھے اور اسے طلاق مت دے، اور اگر وہ ان مشاكل كى بنا پر طلاق چاہتى ہو، اور ديكھے كہ اس خاوند كے ساتھ رہنا مشكل ہے تو پھر خاوند كو چاہيے كہ وہ اسے طلاق دے دے.
اللہ تعالى سب كو اپنى رضا و خوشنودى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .