الحمد للہ.
اول:
قربانی کا جانور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہدیہ کرنا یا آپ کی طرف سے ذبح کرنا شرعی عمل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ طریقہ کار کسی بھی صحابی سے منقول نہیں؛ حالانکہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال درجے کی محبت کرتے تھے اور نیکیوں کیلیے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو ایسے کسی عمل کیلیے رہنمائی نہیں فرمائی جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں درود پڑھنے اور آپ کیلیے اذان کے بعد فضیلت و وسیلہ مانگنے کی ترغیب دلائی ہے۔
اگر یہ کوئی خیر والا عمل ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ضرور بتلاتے۔ نیز یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ کی امت کوئی بھی عمل کرے اس کا ثواب اور اجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور پہنچتا ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی اس نیک عمل کی رہنمائی اور دعوت دی ہے، اس لیے نیکی کرنے والے شخص کی جانب سے نیکی کا ثواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کرنا بلا فائدہ ہے، بلکہ اس سے تو نیکی کرنے والا اپنے آپ کو نیکی کے ثواب سے خارج کر دیتا ہے اور دوسرے کو اس کے نکلنے کا ذرا فائدہ نہیں ہوتا۔
اس مسئلے کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (52772) میں گزر چکی ہیں۔
دوم:
فوت شدگان کی جانب سے قربانی تین صورتوں میں ممکن ہے:
1- زندہ شخص کے ساتھ ضمنی طور پر فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی جائے مثلاً : کوئی شخص اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانب سے قربانی کرے اور اس میں زندہ اور فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی نیت بھی کر لے ؛ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اور اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرتے تھے ، اور آپ کے اہل خانہ میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے جو پہلے فوت ہو چکے تھے مثلاً سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا۔
2-
فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرے ، اور
یہ قربانی واجب ہے لیکن اگر وصیت پوری کرنے سے عاجز ہو تو پھر واجب نہیں ، اس کی
دلیل وصیت پوری کرنے کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
(
فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَآ إِثْمُهُ عَلَى
الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)
ترجمہ: تو جو کوئی بھی اسے سننے کے بعد تبدیل کرے تو اس کا گناہ ان پر ہے جو اسے
تبدیل کرتے ہیں یقیناً اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے ۔ [البقرة: 181]
3- زندہ لوگوں سے علیحدہ اور مستقل طور پر فوت شدگان کی جانب سے الگ قربانی کی جائے (مثلاً: کہ والد کی جانب سے علیحدہ اور والدہ کی جانب سے علیحدہ قربانی کرے ) تو یہ جائز ہے ، فقہائے حنابلہ نے اس کو بیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچے گا اور اسے اس سے فائدہ و نفع ہوگا ، اس میں انہوں نے اس قربانی کو صدقہ پر قیاس کیا ہے ۔
لیکن ایسا نہ کرنا بہتر ہے؛ کیونکہ سنت میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدگان میں سے خصوصی طور پر کسی ایک کی جانب سے بھی کوئی قربانی نہیں فرمائی ۔ نہ تو انہوں نے اپنے چچا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب سے قربانی کی حالانکہ وہ آپ کے سب سے زیادہ عزیز اقربا میں سے تھے ۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں فوت ہونے والی اپنی اولاد کی جانب سے قربانی نہیں کی ، اور نہ ہی اپنی سب سے عزیز بیوی خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی جانب سے قربانی کی ۔ اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کسی بھی صحابی سے یہ عمل نہیں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو ۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (36596) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ اعلم.