الحمد للہ.
اول:
رسول اللہ پر درود پڑھنے کے لیے بنائے گئے یہ الفاظ خود ساختہ ہیں، احادیث اور آثار میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
ان الفاظ کو صاحب کتاب: " نزهة المجالس ومنتخب النفائس " (ص/284) مؤرخ اور ادیب عبد الرحمن بن عبد السلام صفوری (متوفی: 894 ہجری) نے ذکر کیا ہے۔ اسی طرح مالکی فقیہ عمر بن علی بن سالم فاکہانی نحوی (متوفی: 734ہجری) نے اپنی کتاب: " الفجر المنير " (ص/31-32) میں اس واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"مجھے صالح موسی الضریر رحمہ اللہ نے بتلایا کہ وہ ایک بار سمندری سفر کے لیے کشتی میں سوار ہوئے تو راستے میں سمندری طوفان نے ہمیں گھیر لیا، اس نوعیت کے سمندری طوفان سے کوئی کوئی ہی بچ پاتا ہے، تو لوگوں نے موت کے خوف سے چیخ و پکار شروع کر دی۔ وہ کہتے ہیں کہ: اسی دوران میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا، مجھے خواب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے فرما رہے تھے: کشتی کے تمام سواروں سے کہو کہ ہزار بار یہ دعا [درود تنجینا ]پڑھیں: " اللهم صل على سيدنا محمد ، وعلى آل سيدنا ، صلاة تنجينا بها من جميع الأهوال والآفات ، وتقضي لنا بها جميع الحاجات ، وتطهرنا بها من جميع السيئات ، وترفعنا بها عندك أعلى الدرجات ، وتبلغنا بها أقصى الغايات من جميع الخيرات في الحياة وبعد الممات " وہ کہتے ہیں کہ میں فوری اپنی نیند سے بیدار ہوا اور کشتی میں سوار تمام لوگوں کو اپنا خواب سنایا، تو ابھی ہم نے تقریباً تین سو بار ہی اس درود کو پڑھا تھا ؛ کہ ہمیں نجات مل گئی۔ واقعہ بیان کرتے ہوئے تقریباً اسی طرح کے الفاظ بیان کیے۔ اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ڈھیروں درود و سلامی نازل فرمائے۔" ختم شد
اب یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ خوابوں سے شرعی احکامات یا فضائل ثابت نہیں ہوتے؛ لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ان الفاظ میں درود پڑھنے کی فضیلت خواب سے کشید کرنا جائز نہیں ہے۔
دوسری جانب اللہ تعالی کی شریعت تو مکمل ہو چکی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: میں نے آج تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔[المائدۃ: 3]
اور یہ مکمل دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری دیانت داری کے ساتھ ہم تک پہنچایا اس میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں کی، اس لیے مسلمان کے لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت شدہ تعلیمات پر عمل کرنا ہی کافی ہے، مسلمان کو کسی بھی نئے طریقہ عبادت، یا کسی عبادت کا استحباب خوابوں سے ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
کیونکہ ایسی دعائیں صحیح ثابت ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تکلیف یا پریشانی کے وقت میں پڑھا کرتے تھے، جیسے کہ بخاری اور مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شدت تکلیف کے وقت فرمایا کرتے تھے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ [ترجمہ: اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں، وہ بہت عظیم اور نرمی والا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہی آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے، وہی عرش عظیم کا رب ہے۔] اس حدیث کو امام بخاری: (6345) اور مسلم : (2730)نے روایت کیا ہے، نیز صحیح مسلم میں: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ کے الفاظ ہیں۔
اسی طرح جامع ترمذی: (3524) میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی معاملہ پریشان کرتا تو فرماتے: يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ [ترجمہ: اے ہمیشہ سے زندہ اور ہمیشہ تک قائم رہنے اور رکھنے والے! تیری ہی رحمت کے واسطے سے میں تجھ سے مدد کا طلب گار ہوں] اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔
اس لیے مسلمان کو ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرنی چاہیے، دینی معاملات میں نت نئے امور ایجاد کرنے سے بچنا چاہیے، اللہ تعالی سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے راضی ہو، آپ فرما گئے تھے کہ: "اتباع سنت کرو، بدعت کے پیچھے نہ چلو؛ کیونکہ سنت ہی تمہیں کافی ہے" دارمی: (205)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں بہترین گفتار اور کردار کا حامل بنا دے۔