اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بيمارى كى بنا پر تين برس سے روزے نہيں ركھے

سوال

ميں تين برس سے بيمار ہوں اور روزے نہيں ركھ رہى اب چوتھا برس ہے كيا ميرے ذمہ روزے ہيں يا كہ كفارہ ادا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے روزوں كى تاخير پر مريض كو معاف كيا ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).

اللہ سبحانہ و تعالى كا مريض پر فضل و كرم ہے كہ اس نے مريض كو شفاياب ہونے كے بعد روزے ركھنے كى اجازت دى ہے، كہ وہ بيمارى كى حالت ميں روزے نہ ركھے بلكہ جب شفاياب ہو جائے تو پھر وہ اپنے ذمہ روزوں كى قضاء كر لے.

اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا ہے:

اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى كرنا چاہتا ہے، اور تمہارے ساتھ تنگى نہيں كرنا چاہتا البقرۃ ( 185 ).

لہذا جب اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو بيمارى سے شفاياب كرے تو آپ روزوں كى قضاء كر ليں.

ليكن اگر ڈاكٹر يہ فيصلہ كريں كہ اس مرض سے شفايابى كى اميد نہيں اور بيمارى نہيں جائيگى تو پھر آپ ہر دن كے بدلے ميں ايك مسكين كو كھانا كھلائيں.

وہ بوڑھا مرد اور عورت جو بڑھاپے كى بنا پر روزہ ركھنے كى استطاعت نہ ركھتے ہوں تو وہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائيں گے، اس كى مقدار نصف صاع كھجور يا چاول وغيرہ جو غلہ اور خوراك اس علاقے ميں استعمال ہوتى ہو مسكين كو دى جائيگى، يعنى تقريبا ڈيڑھ كلو.

ليكن وہ شخص جو بيمارى سے شفايابى كا منتظر ہو اور اسے شفايابى كى اميد ہو تو وہ كھانا نہيں دےگا، بلكہ وہ صبر كرے حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى اسے شفايابى نصيب كر دے تو وہ اپنے ذمہ روزوں كى قضاء كرےگا، چاہے كئى برس كے ہى ہوں؛ كيونكہ اس كا شرعى عذر تھا اور اس صورت ميں اس پر كوئى كفارہ نہيں ہوگا " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب