منگل 23 جمادی ثانیہ 1446 - 24 دسمبر 2024
اردو

کیا اسلام کا غیر مسلموں کے بارے میں رویہ نرمی اور مشفقانہ ہے؟

سوال

اسلام ساری انسانیت کی طرف کیسے دیکھتا ہے؟ کیا دوسروں کا مذہب اور نسل دیکھے بغیر انہیں احترام اور ان  کی عزت دیتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بلا شبہ اسلام ساری انسانیت کے لیے نرمی والا اور مشفقانہ رویہ رکھتا ہے، اس کے علاوہ کچھ اور اسلام میں انسانیت کے لیے ہو ہی نہیں سکتا؛ کیونکہ دینِ اسلام  اللہ تعالی کا سب سے آخری دین ہے ، اور سب لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف سے اسی دین میں داخل ہونے کا حکم ہے، پھر اسی طرح اللہ تعالی نے یہ دین بھی  ایسی شخصیت پر نازل کیا ہے جس کا دل ساری مخلوقات کے لیے نہایت مہربان  اور خدا ترسی رکھنے والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس اللہ تعالی کے اس فرمان کے مصداق ہیں: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں پر مہربانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔[الانبیاء: 107]

پوری شریعت اسلامیہ اور صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں ہم قرآن کریم، سنت مبارکہ اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت سے یہ بات نہایت واضح دلائل کے ساتھ ثابت کر سکتے ہیں، اور اس بات کے ثبوت کی کئی شکلیں  بھی موجود ہیں، مثلاً:

1-اسلام کی دعوت، لوگوں کو شرک و کفر سے بچانا

اس حوالے سے قرآن کریم اور صحیح احادیث میں متعدد احکامات موجود ہیں کہ مسلمانوں کو  اللہ تعالی کی وحدانیت کی دعوت دینے کا حکم  دیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس کی دعوت دیں، اس کے لیے اپنی دولت، وقت اور جان  بھی کھپا  دیں، یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ جہان والوں کو اسلام کی رحمت حاصل ہو سکے، لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لے آئیں، انہیں دنیاوی جھمیلوں سے نکال کر دنیا و آخرت کی وسعتوں میں لے آئیں۔

اسی لیے فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: تم میں سے ایک امت ایسی ہو جو خیر کی دعوت دے، لوگوں کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، یہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ [آل عمران: 104]

2-والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان چاہے دونوں کافر  ہی کیوں نہ ہوں!

بلکہ اگر والدین دونوں ہی اپنی اولاد کو اسلام سے روکتے ہوں اور رکاوٹیں ڈالتے ہوں، والدین اپنی اولاد کو شرک و کفر کا حکم دیتے ہوں تب بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَوَصَّيْنَا الْأِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْناً عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ . وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفاً وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
ترجمہ: ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکیدی نصیحت کی ہے اس کی ماں نے اسے اپنے بطن میں بہت کمزوری میں اٹھائے رکھا اور دو سال اسے دودھ پلاتی رہی۔ اے انسان! میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرنا۔ تجھے میری طرف ہی پلٹ کر آنا ہے ۔ [14] اور اگر والدین تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ ماننا۔ لیکن دنیاوی امور  میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا، تاہم پیروی اس شخص کے راستے کی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے پھر تم سب کو میری طرف ہی پلٹنا ہے، میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔ [لقمان: 14 – 15]

3- پڑوسیوں کا خیال رکھنے کی وصیت کی ہے چاہے غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔

آپ کو ایسا کوئی دین، قانون اور طرزِ زندگی نہیں ملے گا جو اسلام کی طرح لوگوں کو اپنے پڑوسی کا خیال رکھنے کا حکم دے، اسلام پڑوسی کی حفاظت کا حکم دیتا ہے، پڑوسی کے حقوق اللہ تعالی نے رکھے ہیں، بلکہ پڑوسی کی عزت کا خیال رکھنا کا بھی اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ  مَنْ كَانَ مُخْتَالاً فَخُوراً ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قرابت دار ہمسایہ، اجنبی ہمسایہ، عارضی ساتھی، مسافر اور ان سے جن کی ملکیت تمہارے ہاتھ میں ہے ان کے ساتھ احسان کرو۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ [النساء: 36]

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نوف شامی کے مطابق: آیت کریمہ میں وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى سے مراد مسلمان پڑوسی  ہے، اور وَالْجَارِ الْجُنُبِ سے مراد یہودی اور عیسائی پڑوسی ہے۔

میں [قرطبی رحمہ اللہ ] کہتا ہوں کہ:   اگر آیت کے ان الفاظ  سے  یہی مراد ہو تو پھر پڑوسی کا خیال رکھنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور اس کی ترغیب دلائی گئی ہے  اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں پڑوسی شامل ہوں گے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ آیت میں مذکور احسان  سے مراد کسی کی غمگساری بھی ہو سکتی ہے، کبھی اس کا معنی حسن معاشرت ہوتا ہے، اور کبھی کسی کو تکلیف نہ دینا  بلکہ حمایت کرنا  بھی احسان کے معنی میں شامل ہوتا ہے۔ صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے جبریل  پڑوسی کا خیال رکھنے کے بارے میں اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے لگنے لگا کہ پڑوسی کو وارث قرار دے دیں گے۔) اسی طرح ابو شریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔) کہا گیا: کون یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس کی تکلیفوں سے  اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔) یہ احادیث ہمہ قسم کے پڑوسیوں کے متعلق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی تین بار قسم اٹھا کر  تاکید کی ہے کہ پڑوسی کو تکلیف نہیں دینی، پھر یہ بھی فرمایا کہ  جو شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف دیتا ہے اس کا ایمان بھی کامل نہیں ہے۔ اس لیے مومن شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف دینے سے خبردار رہے، اور ان تمام کاموں سے باز آ جائے جن کاموں سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے۔ اور ہر وہ کام کرے جن میں اللہ اور اس کی رسول کی رضا ہو، اور  اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس کام کی ترغیب دی ہو وہی کام کرے۔” ختم شد
“تفسیر قرطبی” (5/183 ، 184)

4- غیر حربی کافر کے ساتھ لین دین کرتے ہوئے عدل و احسان سے کام لینا۔

اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
ترجمہ: اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔[الممتحنہ: 8]

علامہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے مشرک عزیز و اقارب وغیرہ سے حسن سلوک، صلہ رحمی اور ان کو معروف طریقے سے بھلائی کا بدلہ بھلائی میں دینے سے تب نہیں روکتا جب انہوں نے دین کے معاملے میں تمہارے ساتھ جنگ کی ہو نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہو۔ اس لیے اگر تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں؛ کیونکہ ان حالات میں صلہ رحمی ممنوع نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے میں کوئی خرابی ہے ۔”
تفسیر سعدی: (856)

5- ذمی اور معاہد کافر  کو قتل کرنا حرام ہے، اس حوالے سے شدید ترین وعید بھی ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (جس نے کسی ذمی کو  قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا ۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے ۔) اسے بخاری: (2995)  نے روایت کیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس سے مراد ایسا ذمی ہے جس نے مسلمانوں سے پروانہ امان لیا ہوا ہے، چاہے وہ جزیہ کے عوض ہو یا  اسلامی حکمران کے ساتھ صلح کی وجہ سے ہو یا کسی مسلمان نے اسے پناہ دی ہوئی ہو۔” ختم شد
“فتح الباری ” ( 12 / 259 )

6- ذمی کافر پر ظلم کرنا  اور اس کی طاقت سے بڑھ کر اسے مکلف بنانا حرام ہے۔

حدیث مبارکہ میں واضح طور پر ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خبردار ! جس کسی نے کسی عہد والے  ذمی  پر ظلم کیا یا اس کی تنقیص کی  یا اس کی ہمت سے بڑھ کے اسے کسی کام کا مکلف بنایا یا اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا ۔) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ  : (3052) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ  نے اسے “صحیح ابو داود ” میں صحیح قرار دیا ہے۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ہمارے ملک میں کوئی شخص غیر مسلم ملک سے کام  یا کاروبار کرنے کے لیے آئے  اور اسے ان میں سے کسی کام کی اجازت بھی دے دی جائے تو یہ شخص  معاہد یا مستامن کہلاتا ہے، اس کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کا اقدام جائز نہیں ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت  ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس نے کسی ذمی کو  قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا ۔) تو ہم مسلمان ہیں اور ہم اللہ تعالی کے حکم کے سامنے ہمیشہ سر نگوں رہتے ہیں۔ چنانچہ اسلام کی رو سے جنہیں احترام حاصل ہے ہم ان کا احترام کرتے ہیں چاہے وہ معاہد ہوں یا مستامن ہوں۔ اگر کوئی شخص انہیں  تکلیف پہنچائے یا انہیں حاصل امان کو ٹھیس پہنچائے تو  ایسا شخص  اسلام کا نام بد نام کر رہا ہے، اور لوگوں کے سامنے اس نے دہشت گردی، دھوکا دہی اور خیانت  کی صورت میں اسلام کا تعارف پیش کیا ہے۔ لہذا اسلامی قوانین کی پاسداری کرنے والا شخص ، معاہدوں اور میثاق کی پابندی کرنے والے شخص  سے خیر اور کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔”
” فتاوى الشیخ عثیمین” ( 25 / 493 )

7- کسی غیر مسلم کے ساتھ زیادتی کرنا حرام ہے اور عدل کرنا واجب ہے۔

اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواْ ترجمہ: کسی قوم سے تمہارا اس وجہ سے نفرت کرنا کہ انہوں نے تمہیں مسجد الحرام سے روکا تھا تمہیں جارحیت اپنانے پر مجبور نہ کرے۔ [المائدہ: 2]

اسی طرح  ایک اور مقام پر فرمایا:
وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى
ترجمہ: تمہاری کسی قوم سے نفرت  تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو، بلکہ عدل ہی کرو یہی تقوی کے قریب تر عمل ہے۔ [المائدہ: 8]

الشیخ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ذرا غور کریں کہ ان آیات کریمہ میں  کیا شاندار اخلاق سکھایا گیا ہے کہ: اگر کسی نے آپ بارے میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی ہے تو آپ پر پھر بھی لازم ہے کہ آپ اس کے بارے میں اللہ تعالی کی اطاعت کریں۔” ختم شد
” أضواء البيان ” ( 3 / 50 )

دوم:

مندرجہ بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل نہایت اہم اور ضروری امور پر توجہ دینا بھی ضروری ہے:

1- اس وقت پوری دنیا میں مندرجہ بالا اسلامی تفصیلات سے متصادم جو کچھ بھی دکھایا جا رہا ہے ان سب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ صرف اور صرف منفی حرکتیں کرنے والوں کے ذاتی کام ہیں، ان کی نسبت اسلام کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔ ہر مذہب اور دین کے ماننے والوں میں ایسے افراد مل جاتے ہیں جو اپنے ہی مذہب کی تعلیمات  سے تصادم رکھتے ہیں اور اپنے مذہب کی تعلیمات پر کار بند نہیں رہتے۔

2-اس دھرتی اور اس دھرتی کے رہنے والوں نے جو کچھ “کافروں” کی کارستانیاں دیکھی ہیں وہ کسی طور پر بھی مسلمانوں  کی منفی حرکتوں  کے ساتھ موازنے کے لائق نہیں ہیں؛ کیونکہ صرف دو  عالمی جنگوں  میں قتل ہونے والے افراد کی تعداد سات کروڑ ہے ، یہ مسلمانوں نے نہیں بلکہ عیسائیوں نے لڑی تھی!

کروڑوں مسلمانوں کا قتل عام  صلیبی  اور دیگر جنگوں میں  ہوا، ان مسلمانوں کے خون سوشلسٹ، یہودیوں ،  ہندو ؤں اور سکھوں کے ہاتھ  لگا ہوا ہے، ان کی تفصیلات بیان کرنا مقصود نہیں ہے، اور ان حقائق کا انکار بھی صرف وہی کرتا ہے جس کی عقل ماؤف ہو۔!

اس سب کے باوجود مسلم ممالک سے معدنیات اور دیگر قیمتی قدرتی اشیاء کی لوٹ کھسوٹ  ماضی بعید سے لے کر اب بھی انہی غیر مسلموں کی طرف سے جاری ہے ان کا تعلق غیر اسلامی ادیان و مذاہب سے ہے۔  لہذا جب بھی اسلام کے انسانیت کے متعلق نقطہ نظر ، باہمی محبت اور انسانی ہمدردی  پر بات ہو تو یہ چیز بھی سامنے ہونی چاہیے  ، اور ماہرین تاریخ  موازنہ پیش کریں کہ جب مسلمانوں نے دیگر علاقوں کو فتح کیا تو وہاں کیا کچھ ہوا، اور جب غیر مسلموں نے  مسلم علاقوں کو فتح کیا تو کیا کچھ نہیں ہوا! اس کے لیے بطور مثال صلیبی جنگوں میں متاثر ہونے والے اسلامی خطے ہی دیکھ لیں! ہر دو میں بالکل واضح فرق نظر آئے گا، کہ انسانی ہمدردی کہاں پائی گئی اور سنگدلی کہاں تھی! انسانوں کے ساتھ محبت کن لوگوں کو تھی اور نفرت کن کو ہے؟ زندگی اور موت  کا کھیل کس نے کھیلا؟

3- ہم نے پہلے  اسلام کے کافروں کے متعلق  نظریہ  اور اسلامی احکامات میں  محبت، نرمی اور انسانی ہمدردی کا جو کچھ بھی تذکرہ کیا ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم درج ذیل اسلامی احکامات سے لا تعلق ہو جائیں، ان احکامات کو کچھ لوگ مٹانے کے در پے ہیں:

الف-غیر مسلموں کے ساتھ قلبی محبت  اور دلی دوستی رکھنا اسلام میں حرام ہے۔ چنانچہ کوئی بھی ذی شعور اور عقل مند شخص  اس بات میں تفریق آسانی سے کر سکتا ہے کہ اسلام کی طرف سے حکم کردہ کافر غیر حربی کے ساتھ  حسن سلوک، عدل ، نرمی اور انسانی ہمدردی   میں اور قلبی دوستی اور محبت نہ رکھنے میں کیا فرق ہے؟ کافروں کے ساتھ  قلبی لگاؤ اور محبت کی ممانعت اس لیے کہ وہ اللہ رب العالمین کا انکار کرتے ہیں اور اسلام قبول نہیں کرتے۔

ب-ہمارے لیے یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے کہ ہم اپنی بیٹی، بہن یا کسی بھی مسلم خاتون کا نکاح  کسی غیر مسلم سے کریں چاہے اس کا تعلق کسی بھی دین سے ہو، جبکہ ہم کسی پاکدامن اہل کتاب یعنی یہودی  اور عیسائی لڑکی سے نکاح کر سکتے ہیں؛ اب اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسلام کے اس حکم کی بنیاد بھی اصل میں عقیدہ ہی ہے، چنانچہ  کسی اہل کتاب یہودی یا عیسائی لڑکی جس کا نکاح کسی مسلمان سے ہو گیا ہے  اس کا مسلمان ہونا ممکن ہے۔ اور دوسری طرف کسی مسلمان لڑکی کا کسی غیر مسلم سے  نکاح ہونے پر مسلمان لڑکی کا دین سے پھر جانا بھی ممکن ہے۔ لہذا یہ  حکم بھی  اس عظیم دین کی اسلامی احکامات میں رکھی گئی انسانی ہمدردی کے عین موافق ہے کہ  اہل کتاب کی لڑکی کے ساتھ ہمدردی کہ شاید مسلمان ہو جائے، اور مسلم لڑکی کے ساتھ ہمدردی کہ مبادا بے دین نہ ہو جائے۔

ج- اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے کہ غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے؛ کیونکہ اخلاص  اور صدق دل دونوں ہی اسلام قبول کرنے کی شرائط میں شامل ہے، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ترجمہ: دین قبول کرنے کے لیے کسی پر کوئی زبردستی نہیں ہے۔ [البقرۃ: 256]

د- اسلام میں شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے، اسی طرح چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے،  کسی معصوم  شخصیت پر زنا کی تہمت لگانے کی سزا ڈنڈے مارنا ہے۔ اور ہمیں ان شرعی احکامات پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں ہوتی، بلکہ ہم پورے یقین سے کہتے ہیں کہ  ساری کی ساری دھرتی کو یہ سزائیں لاگو کرنے کی ضرورت ہے، ان سزاؤں کو لاگو کرنے والے ہی  اس دھرتی پر اپنی عزت، آبرو، مال و دولت اور جانیں محفوظ بنا کر زندگی گزاریں گے۔ ان سزاؤں کے متعلق غور و فکر کرنے والا عقل و خرد کا مالک شخص  سمجھ سکتا ہے  کہ یہ سزائیں  متعلقہ جرائم کی سرے سے بیخ کنی کے لیے مقرر کی گئی ہیں، جرم کا ارتکاب  کرنے کے بعد مجرم کو سزا دینے کے لیے نہیں! یعنی کوئی بھی شخص جرم کا ارتکاب کرنے کا سوچے بھی نہ ۔ جبکہ دوسری جانب آپ دیگر اقوام کو دیکھ لیں جہاں پر یہ سزائیں لاگو نہیں ہیں ، واضح نظر آئے گا کہ یومیہ عصمت دری  ، چوری، اور قتل و غارت کے واقعات  رونما ہو رہے ہیں۔ ان میں جرائم کی روک تھام کے لیے بھی  ان سزاؤں کو لاگو کرنے کی ضرورت  ہے، نیز اسلامی احکامات میں حکمت، انسانی ہمدردی، عدل اور خیر و برکت ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب